"سید مجتبیٰ حسین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، اس ک\1، طلبہ، سے، کیے
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 46:
 
 
'''پروفیسر سید مجتبیٰ حسین ''' (پیدائش:[[یکم جولائ]]، [[1922ء]] - وفات: [[یکم اپریل]]، [[1989ء]] ) [[پاکستان]] کے ممتاز اردو تنقید نگار ،نگار، استاد۔ دانشور اور شاعر تھے۔
 
==ابتدائی حالاتِ زندگی==
سید مجتبی حسین [[یکم جولائی]] [[1922ء]] میں موضع سنجر پور ،پور، ضلع [[جونپور]] ، [[برطانوی ہند]] میں ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ہوئے۔<ref>[http://bio-bibliography.com/authors/view/4983 Bio-bibliography.com - Authors<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>دادا کا نام عبداللہعبد تھااللہ ۔تھا۔ صدر قانون گو اور بےمثلبے مثل خطاط تھے ۔تھے۔ والد کا نام سید باقر حسین تھا اور وہ ڈپٹی کلکٹر تھے۔اورتھے۔ اور الہ آباد یونیورسٹی کے پہلے گریجویٹ تھے ۔تھے۔ شعرو سخن کا بھی ذوق رکھتے تھے ۔تھے۔ سید مجتبی حسین کی والدہ قمر النسا بیگم شعر و سخن کا نہایت عمدہ ذوق رکھتی تھیں ۔تھیں۔ مجتبی حسین کا ایک بڑا بھائی مصطفی حسین اور ایک بہن سیدہ شمیم آرا تھے ۔تھے۔ مجتبی حسین نے ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کی ۔کی۔ والدین کی طرف سے ادبی ذوق ورثے میں ملا لہذا نو برس کی عمر میں گلستانِ سعدی بھی پڑھ لی تھی ۔ابتدائی۔ ابتدائی دو جماعتوں کے بعد کی تعلیم انہوں نے جونپور اور جھانسی سے حاصل کی ۔کی۔ جونپور کے مشن ہائ اسکول سے کلاس سوم سے ہشتم تک پڑھا اور اسکول کی بقیہ تعلیم اپنے بڑے بھائی مصطفی حسین کے پاس " جھانسی" میں آ کر حاصل کی اور [[1935ء]] میں میٹرک کیا۔
 
سید مجتبی حسین کے والد کو انگریزی ،انگریزی، عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا لہذا مجتبی حسین کو بچپن سے ہی انگریزی ادب کا شائق بنایا اور اردو ادب کی بھی تمام مشہور اور اہم کتب اسکول کے زمانے میں ہی پڑھوا دیں ۔ان۔ ان بیش قیمت کتب کا مطالعہ مجتبی حسین کی شخصیت کو صحیح معنوں میں ادب آشنا بنانے میں بہت معاون ثابت ہوا ۔ہوا۔
کالج ٹیوٹوریل میں فراق گورکھپوری جیسے استاد ملے۔ انکے فارسی کے استاد ڈاکٹر زبیر اور فلسفے کے استاد ڈاکٹر مکر جی تھے ۔
[[1943ء]] میں گریجویشن پاس کی اور [[الہ آباد یونیورسٹی]] سے 1945 میں اول درجے میں [[ایم اے]] ([[اردو]]) کیا ۔
 
==کیرئیر کا آغاز==
ایم اے کرنے کے بعد پروفیسر مجتبی حسین نے فراق گورکھپوری کے ساتھ " سنگم پبلشنگ ہاؤس " الہ آباد میں قائم کیا ۔اس۔ اس مکتبہ کو قائم کرنے اور چلانے کے لیے تمام روپیہ مجتبی حسین نے ہی لگایا ۔لگایا۔ اور نہ صرف فراق صاحب بلکہ دیگر بہت سے نامور ادیبوں کی کتب اسی اسی مکتبے سے شائع ہوئیں ۔1945 میں ہی سنگم پبلشنگ ہاؤس کو اپنے دوست رئیس احمد رزاقی کے حوالے کیا اور بمبئ آ گئے جہاں دو سال تک قیام کیا ۔یہاں۔ یہاں کچھ عرصہ انجمن اسلام ہائ اسکول میں بطور مدرس خدمات انجام دیں ۔
اس کے بعد فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی اور فلم اسکرپٹ پر طبع آزمائ کرتے رہے ۔رہے۔ 1947 میں گاؤں واپس لوٹ آئے ۔آئے۔ اور آبائ جاگیر کا نظم و نسق سنبھالا ۔" سنگم پبلشنگ ہاؤس " کچھ عرصہ اچھا کام کرنے کے بعد خسارے میں جانے لگا لہذا 1948 کے آخر میں مجتبی حسین مستقل طور پر پاکستان آ گئے ۔گئے۔ اور نارتھ ناظم آباد کراچی میں رہائش پزیر ہوئے ۔<ref>https://rekhta.org/ebooks/khayal-mujtaba-husain-number-shumara-number-022-magazines</ref>
کراچی کے کالجز میں نوکری نہ ملنے کے باعث پہلے کچھ مدت اسکولوں میں پڑھایا پھر چینی سفارت خانے کے مترجم اور پھر خبرنامے کے مدیر ہوئے ۔یہاں۔ یہاں تقریباََ دس برس تک کام کرتے رہے ۔رہے۔ اس کے بعد محکمہِ تعلیم سے وابستہ ہوئے ۔ہوئے۔
1965 سے 1972 کے دوران پہلے نیشنل کالج کراچی میں صدر شعبہِ اردو کی حیثیت سے کام کیا ۔کیا۔ اس کے چار برس بعد سراج الدولہ کالج کی بنیاد رکھی اور اس میں بطور صدر شعبہ اردو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں ۔سنبھالیں۔ اور بعد میں اسی کالج کے پرنسپل ہو گئے ۔گئے۔
1973 سے جامعہ بلوچستان میں شعبہِ اردو ان کی کوششوں اور کاوشوں سے وجود میں آیا ۔<ref>[https://www.dawn.com/news/396865/karachi-mujtaba-hussain-remembered KARACHI: Mujtaba Hussain remembered - Newspaper - DAWN.COM<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>
1975 میں استاد شعبہ اردو کی حیثیت سے بلوچستان یونیورسٹی میں تقرر ہوا اور بعد میں صدر شعبہ اردو ،اردو، بلوچستان یونیورسٹی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔<ref>[http://www.uob.edu.pk/urdu/ Department of Urdu<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>اور تادمِ مرگ اس یونیورسٹی سے وابستگی رہی ۔
 
==تخلیقی سفر==
مجتبی حسین نے ادبی تخلیقات کی ابتدا افسانہ نگاری سے کی۔ پہلا افسانہ " سوچ " 1943 میں رسالہ " نگار " لکھنؤ سے شائع ہوا ۔ہوا۔ اس کے بعد " نگار ' " ادبی دنیا " اور " ساقی میں باقاعدگی سے لکھتے رہے ۔رہے۔ جب تنقید نگاری کی طرف آئے تو پہلا تنقیدی مضمون " جریدہ اردو شاعری " 1944 میں رسالہ نگار لکھنؤ میں چھپا ۔چھپا۔ اس کے بعد تنقیدی مضامین کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ہوا۔
ڈراما نگاری سے بھی دلچسپی رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے ۔ہوئے۔ اور ان گنت فیچر اور ڈرامے ریڈیو پاکستان سے نشر کر کے مقبولیت پائ ۔
 
==شعر و سخن ==
پروفیسر مجتبی حسین کو شاعری کا بھی شغف رہا ۔انکا۔ انکا کلام مختلف رسالوں میں شائع ہوا ۔ہوا۔ البتہ ان کا مجموعہِ کلام زیرِ ترتیب ہے ۔
 
==نمونہِ کلام==
سطر 100:
===مطبوعہ===
#انتظارِ سحر (ایک ڈراما اور افسانوں کا مجموعہ )1951
#انکارانکار، ، اہرمن ،اہرمن، بن بلایا مہمان ۔ ۔ ۔۔۔ ( ڈرامے )
#تہذیب و تحریر (تنقید ) 1959
#ادب و آگہی ( تنقید ) 1963
#نیم رخ ( تنقید) پہلا ایڈیشن 1978
#دوسرا ایڈیشن 1986
#آغا شاعر قزلباش ۔قزلباش۔ حیات و شاعری ( تالیف )
 
===زیرِ ترتیب===
سطر 112:
#شعری مجموعہ
 
چند ایک ڈرامے پیپی، ، ٹی ،ٹی، وی سے بھی ٹیلی کاسٹ کیے جا چکے ہیںہیں۔ ۔ اہرمن ،اہرمن، بن بلایا مہمان ،مہمان، انکار وغیرہ
نیز پروفیسر مجتبی حسین ماہنامہ شعور کراچی کے شریک مدیر بھی رہے
 
==تنقیدی کلیات ==
پاکستان اسٹڈی سنٹر ،سنٹر، کراچی یونیورسٹی ،یونیورسٹی، پروفیسر مجتبی حسین کے حوالے سے بہت جلد ایک ہزار صفحات سے زائد ایک جامع کتاب شائع کروا رہی ہے ۔ہے۔ اس کتاب کا عنوان پروفیسر مجتبی حسین تنقیدی کلیات ہے ۔ہے۔ اور اس کتاب کی تحقیق و ترتیب و تدوین ڈاکٹر ہلال نقوی نے انجام دی ہے ۔
 
== اعزازات==
سطر 122:
 
==پروفیسر مجتبیٰ حسین کی شخصیت و فن پر تحقیقی مقالات==
اردو ادب میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ میں سے چند نام ایسے بھی ہیں جنہوں نے پروفیسر مجتبی حسین کی شخصیت و فن پر تحقیقی مقالات پیش کیے ہیں ۔ان۔ ان میں کوئٹہ کے بیرم غوری کا نام بھی شامل ہے ۔
 
==وفات ==
[[یکم اپریل]] [[1989ء]] کو وہ [[لاہور]] میں ایک کنوینشن میں شرکت کے بعد [[کراچی]] واپس آ ئے توراستے میں ایک ٹریفک حادثہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ انکی تدفین کراچی میں ہوئی ۔ہوئی۔ پسماندگان میں بیوہ نرگس خاتون اور چار بیٹے انیس باقر ،باقر، اقبال باقر ،باقر، عباس باقر اور غالب باقر چھوڑے ۔
 
==تنقید و آرا ==
سطر 131:
{{اقتباس|میں نے سراج الدولہ کالج کراچی میں 1975 میں سالِ اول سے لے کر اپنے پی ایچ ڈی کی تکمیل تک ان ان سے بحیثیت استاد ان سے رہنمائ پائ۔وہ نقاد بھی تھے،افسانہ نگار اور شاعر بھی ، تاہم تنقید میں انہوں نے بہت سے سنگِ میل قائم کیئے ۔اور انیس و دبیر ، فیض، جوش، قراہ العین کا ناول الغرض سلام نگاری اور قصیدہ گوئی کے ہنر پر بھی مفصل بات کرتے ہیں۔ گویا جملہ اصنافِ شعر و نثرپر عمدہ لکھنے کا ہنر پروفیسر مجتبی حسین کا وصف ہے ۔وہ ایک سماجی اور خاص نظریئے کے مالک تھے ۔ انکا ذہن ترقی پسند تھا لیکن وہ ازحد معتدل بھی تھے۔ وہ صرف میرے استاد ہی نہیں تھے بلکہ ایک شفیق دوست کی طرح سے تھے ۔}}
 
ریڈیو پاکستان ،پاکستان، کوئٹہ کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر جناب [[عابد رضوی]] نے پروفیسر مجتبی حسین کی حیات میں انکی ڈراما نگاری سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا ۔
{{اقتباس|مجتبی حسین صاحب گزشتہ چالیس برسوں سے ریڈیو پاکستان سے پروگرام نشر کر رہے ہیں ۔بلا شبہ انکی ذاتِ گرامی اس ادارے کے لیے سرمایہِ افتخار ہے۔پروفیسر مجتبی حسین صاحب کی شخصیت کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انکی تحریروں میں حیران کن حد تک ہم آہنگی پائ جاتی ہے ۔وہ جو سوچتے ہیں وہی لکھتے ہیں اورجو کہتے ہیں وہی لکھتے ہیں ۔ وہ قلم کی طہارت اور فکر کی صداقت کے ہر پیمانے پر اترتے ہیں۔ <ref>https://rekhta.org/ebooks/khayal-mujtaba-husain-number-shumara-number-022-magazines مجتبی حسین ۔ شخصیت اور ادبی خدمات از فوزیہ وحید ، صفحہ 32 ، سہ ماہی مجلہ خیال ( پروفیسر مجتبی حسین نمبر ) </ref>}}