"سید کفایت علی کافی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، ہو گئے، سے، اور
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 3:
 
== تعلیم ==
علماے [[بدایوں]] و [[بریلی]] سے حصولِ علم کیا۔حدیثکیا۔ حدیث کا درس [[ابو سعید مجددی|شاہ ابو سعید مجددی]] رام پوری تلمیذِ [[شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی]] سے لیا۔مولانالیا۔ مولانا حکیم شیر علی قادری سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ آپ مجاہدِآزادی مفتی عنایت احمدکاکوری تلمیذِ شاہ محمداسحاق دہلوی تلمیذ ونواسۂ شاہ عبدالعزیزعبد العزیز محدِّث دہلوی کے دست راست تھے۔مفتیتھے۔ مفتی عنایت احمد کاکوری نے بریلی اورمولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی نے [[مرادآباد]]کے علاقے میں انگریزوں کے خلاف1857ء میں جہادکے فتاویٰ جاری کیے۔آپکیے۔ آپ نے ذکیؔ مرادآبادی (متوفی: [[1864ء]]) جو امام بخش ناسخؔ کے شاگرد تھے،سے سخن آرائی سیکھی۔
 
== خدمات ==
مولانا سید کفایت علی کافیؔ؛ جنرل بخت خاں روہیلہ کی فوج میں کمانڈر ہو کر دہلی آئے۔بریلی،آئے۔ بریلی، الہ آباد اور مرادآباد میں انگریز سے معرکہ آرائی رہی۔بعضرہی۔ بعض علاقوں کو انگریز سے بازیاب کرانے کے بعد جب اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آیا تو آپ ’’صدرِ شریعت‘‘ بنائے گئے۔ [[امداد صابری]] لکھتے ہیں: ’’انگریز؛ مرادآباد سے بھاگ کر میرٹھ اور نینی تال چلے گئے، نواب مجو خاں حاکم مرادآباد مقرر ہو گئے۔ عباس علی خاں بن اسعد علی خاں ہندی توپ خانہ کے افسر معیّن ہوئے اورمولوی کفایت علی صاحب صدرِ شریعت بنائے گئے، انھوں نے عوام میں جہادی روح پھونکی۔ شہر میں ہر جمعہ کو بعد نماز انگریزوں کے خلاف وعظ فرماتے جس کا بے حد اثر ہوتا تھا۔‘‘<ref>ماہ نامہ ترجمانِ اہلِ سنت کراچی جنگ آزادی 1857ء نمبرجولائی 1975ئ،ص97</ref>
 
مرادآباد میں شورش کے ایام میں مولانا کافیؔ حالات کی رپورٹ بذریعہ خط جنرل بخت خاں کو بھیجتے رہے۔ آپ نے فتاویٰ جہاد کی نقلیں مختلف مقامات پر بھیجیں۔مولانابھیجیں۔ مولانا وہاج الدین مرادآبادی (وفات [[1858ء]]) بھی حریت پسند اور قائدینِ جہادِ آزادی1857ء میں تھے، آپ اور مولانا کافیؔ نے مل جُل کر مرادآباد میں ماحول سازی کی اور لوگوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ انگریزی مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور راے عامہ ہم وار کی۔ آنولہ ضلع بریلی میں حکیم سعیداللہ قادری کے یہاں قیام پزیر رہ کر اطراف میں حریت کی صدا بلند کرتے رہے۔یہاںرہے۔ یہاں سے بریلی گئے اور خان بہادر خاں نبیرۂ حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیلہ سے ملاقات کی،ان سے جہاد کے عنوان پر تبادلۂ خیال کیا۔واضحکیا۔ واضح ہو کہ روہیلہ پٹھانوں کا یہ قبیلہ بڑا جری و بہادر تھا، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کا بڑھیچ قبیلہ اوپر جا کر روہیلوں سے جا ملتا ہے۔ مولانا کافیؔ بریلی سے مرادآباد آئے اور تگ ودو میں لگے رہے۔
 
== مقدمہ و سزا موت ==
26 اپریل 1858ء کو جنرل مونس گورہ فوج لے کر مرادآباد پر حملہ آور ہوا۔ مجاہدین جاں نثاری سے لڑے۔نوابلڑے۔ نواب مجو خاں آخری وقت تک ایک مکان کی چھت پر بندوق چلاتے نظر آئے۔ آخر کار جامِ شہادت نوش کیا۔سقوطِکیا۔ سقوطِ مرادآباد کے ساتھ ہی تمام انقلابی رہ نما منتشر ہو گئے۔ جو انگریز حکومت کے ہاتھ آئے وہ تختۂ دار پر چڑھا دیے گئے یا حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور[کالاپانی] کی سزا سے ہم کنار ہوئے۔مولاناہوئے۔ مولانا کفایت علی کافیؔ کو فخرالدین کلال کی مخبری سے انگریز نے گرفتار کر لیا۔ سزاؤں کا اذیت ناک مرحلہ شروع ہوا۔ جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی۔ زخموں پرنمک مرچ چھڑکی گئی۔ اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے انگریزوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ جب اس مردِ مجاہد سے انگریز مایوس ہو چکا تو برسرِ عام چوک مرادآباد میں اس عاشقِ رسول کو تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ <ref>ملخصاً،نفس مصدر،ص97۔98</ref>
4 مئی 1858ء کو مقدمہ کی پیشی ہوئی اور جلد ہی پھانسی کی سزا سنائی گئی۔مسٹرجانگئی۔ مسٹرجان انگلسن مجسٹریٹ کمیشن مرادآباد نے فیصلہ سنایا کہ: ’’چوں کہ اس مدعا علیہ ملزم نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور عوام کو قانونی حکومت کے خلاف ورغلایا اور شہر میں لوٹ مار کی، ملزم کا یہ فعل صریح بغاوتِ انگریزی سرکار ہوا۔ جس کی پاداش میں ملزم کو سزاے کامل دی جائے۔…حکم ہوا-مدعا علیہ کو پھانسی دے کر جان سے ماراجائے۔جانماراجائے۔ جان انگلسن، 6 مئی 1858ء مقدمہ کی پوری کارروائی صرف دو دن میں پوری کردی گئی۔4 مئی کو پیش ہوا اور 6 مئی کو حکم دے دیا گیا۔اورگیا۔ اور اسی وقت پھانسی دے دی گئی۔<ref>مرادآباد:تاریخ جدوجہد آزادی، سید محبوب حسین سبزواری، ص144؛ علما وقائدین جنگِ آزادی1857ء، یٰسٓ اختر مصباحی،دارالقلم دہلی2010ء، ص25۔26</ref>
جب پھانسی کا حکم سنایا گیا مولانا کافیؔ مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ کو جاتے ہوئے زبان پر یہ اشعار جاری تھے ؎
<blockquote>