"صدام حسین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خانہ معلومات کے اندراج کی درستی
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، ہو گئے، نشان دہی، اور، سے، سے، امریکا
سطر 87:
[[تصویر:Sadamaction.jpg|framepx|thumb|left|صدام حسین]]اس سازش کو منظر عام پر لانے کے لیے صدام نے کونسل کے ارکان کا ایک اجلاس طلب کیا اس میں صدام حسین اسٹیج پر بیٹھے سگار پیتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ بغاوت میں ملوث افراد کے نام کی فہرست باآواز بلند پڑھی جاتی ہے اور جنہیں باری باری اجلاس سے باہر لے جا کر گرفتار کر لیا جاتا ہے یا ہلاک کر دیا جاتا ہے۔اس اجلاس کے شرکاء جذباتی انداز میں باآوازِ بلند صدر صدام کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔
 
اس کے بعد بعث پارٹی کے حکومت پر صدر صدام کی شخصیت حاوی ہوتی گئی اور جیسا کہ مورخ پیبی مار نشاندہینشان دہی کرتی ہیں اگر کوئی سیاسی نظریہ بچا تو وہ صدام ازم کا تھا۔
 
آنے والے برسوں میں صدام کے سیاسی عزائم عراق کی حدود سے واضع طور پر بڑھنے لگے۔ وہ خود کو عرب دنیا کا رہنما اور تاریخ میں اپنے آپ کو [[صلاح الدین ایوبی]] جیسے سپہ سالار کے برابر سمجھتے تھے کیونکہ صلاح الدین بھی تکریت میں پیدا ہوئے۔
سطر 95:
 
== کویت پر حملہ ==
صدر صدام نے ہمسایہ ممالک سے اقتصادی مدد مانگی۔ انہوں نے [[کویت]] پر عراقی تیل چوری کرنے کا الزام عائد کیا اور مطلوبہ معاوضہ نہ ملنے پر اگست 1990ء میں عراقی فوجیں کویت میں داخل ہو گئیں۔صدر صدام کو یہ فوجی اقدام بڑا مہنگا پڑا ان کو توقع تھی کہ بڑی طاقتیں جنہوں نے ایران کے خلاف ان کی جنگ میں عراق کا بھر پور ساتھ دیا، ہتھیار اور وسائل فراہم کئےکیے اب اگر ان کھل کر حمایت نہ بھی کریں تو کم از کم مخالفت بھی نہیں کریں گی۔
 
== عراق پر اتحادیوں کا پہلا حملہ ==
لیکن حالات بدل چکے تھے امریکہامریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خلیج میں اپنے مفادات یعنی تیل اور اسرائیل کی حفاظت ہر قیمت پر ضروری تھی۔اور اسی لیے امریکی قیادت میں ’آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم‘ کے تحت امریکہامریکا اور برطانیہ نے عراق پر جنگ مسلط کر دی۔
 
== عراق پر امریکہامریکا اور برطانیہ کا دوسرا حملہ ==
[[11 ستمبر]] کے واقعے کے بعد امریکہامریکا مسلسل اس بات پر مصر رہا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی کہ ہتھیار ہیں اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں کو صرف 45منٹ میں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ عراق پر جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کا الزام بھی لگا اس لیے عراق پر فروری 2003ء میں امریکہامریکا نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ لیکن عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے بعد سے اب تک ان میں سے کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔
 
عراق امریکی اور برطانوی گٹھ جوڑ میں شامل ملکوں کو اگرچہ [[اقوام متحدہ]] اور سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے امریکی برطانوی گٹھ جوڑ سے کیے جانے والے دعووں کی تائید بھی نہیں کی تھی تاہم اس گٹھ جوڑ سے حملہ کر دیا گیا اپریل میں [[سقوط بغداد]] کے بعد صدر صدام حسین روپوش ہوگئے۔ہو گئے۔
 
== گرفتاری ==
[[تصویر:Saddamcaptured.jpg|framepx|thumb|left|صدام گرفتاری کے وقت]]
اس قبضے کے بعد 22 جولائی 2003ء کو معزول صدر صدام کے دونوں بیٹوں کو [[عودے حسین|عودے]] اور [[قوصے حسین]] کو عراق کے شمالی شہر [[موصل (ضد ابہام)|موصل]] میں حملہ کر کے قتل کر دیا گیا۔ 14 دسمبر 2003ء سنیچر کی شب مقامی وقت کے مطابق شب 8 بجے عراق کے شہر [[تکریت]] کے قریب سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔جس کے بعد ان پر امریکہامریکا کی نگرانی میں مقدمہ چلایا گیا جس نے 3 نومبر کو صدام حسین کو 148 کردوں کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی۔
 
== سزائے موت ==
اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے 30 دسمبر 2006ء بمطابق 10 ذوالحجہ 1427ھ (عید الاضحی کے دن) صدر صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔ انہیں عراق کی اعلیٰ عدالت نے دجیل میں 1982 میں148 افراد کی ہلاکت کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ ان افراد کو صدام حسین پر قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔ صدام حسین کے ساتھ ان کے سوتیلے بھائی اور انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ برزان التکریت اورسابق چیف جسٹس کو بھی پھانسی دیدی گئی۔صدام حسین پر کردوں کے خلاف نسل کشی، جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم جیسے سنگین الزامات بھی تھے۔ دجیل مقدمے میں 7 میں سے دو ملزمان برزان التکریت(انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ) اور طحہٰ یاسین رمضان(سابق نائب صدر) معزول صدر کے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں۔ 5 دیگر ملزمان، سابق جج الوید حامد البندیر اور بعث پارٹی کے چار سابق عہدے دار عبداللہ خادم روئد، مظہر عبداللہ روئد، علی دعیم علی اور محمد ازاوی علی پر بھی دجیل ہلاکتوں کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ جن میں سے دو کو موت جبکہ 4 کو قید کی سزا کا حکم سنایا گیا ۔ ساتویں ملزم کو ناکافی شہادتوں کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ صدام حسین نے عدالت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے اسے امریکی قبضے کا ایک ہتھیار قرار دیا تھا۔ مقدمے کی کارروائی کے آغاز سے ہی صدام حسین کے وکیل نے عدالتی استحقاق کے بارے میں سوالات جاری رکھے۔ اس مقدمہ کے جج کو مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم سے ہمدردی رکھنے کے الزام اس وقت برطرف کر دیا گیا، جب مقدمہ اپنے آخری مراحل میں تھا،تھا اور ایک نیا جج مقرر کیا گیا۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران صدر صدام حسین امریکی قابض فوج کی تحویل میں رہے۔ آخری دنوں میں خبر دی گئی کہ انہیں پھانسی دینے کی غرض سے امریکی قابض افواج نے عراقی نژاد انتظامیہ کے حوالے کر دیا ہے۔ ان آخری دو ایام میں عراقی کٹھ پتلی انتظامیہ کے عہدے دار اس بارے متضاد بیانات دینے لگے کہ سزا پر کب عملدرآمد کیا جائے گا، وزیر انصاف نے کہا کہ قانون کی رو سے ۳۰ دن ضروری ہیں۔
 
صدام کے مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے تین وکیلوں کو قتل کر دیا گیا جس کے بعد ان کے مؤکلین نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور صدام حسین نے بھوک ہڑتال کی۔ عدالتی کارروائی کے اختتام سے قبل صدام نے عدالت کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ ان مقدمہ امریکی خواہشات کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔ صدام حسین کے خلاف عدالتی کارروائی [[بغداد]] میں خصوصی ٹربیونل میں سخت حفاظتی انتظامات کے تحت چلائی گئی۔اس دوران پانچ ججوں پر مشتمل ایک پینل عدالتی کارروائی کا جائزہ لیتا رہا ۔ بہت سے بین الاقوامی مقدمات کی طرح، صدام پر مقدمہ ان کے اپنے ہی لوگوں کے ذریعے چلایا گیا ۔صدام حسین نے پھانسی کے سزا سننے کے بعد فائرنگ ا سکواڈ کے ذریعے موت کی درخواست کی تھی۔