"طہماسپ اول" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏top: درستی املا
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، سے، دار الحکومت، سے، بے امنی
سطر 1:
[[تصویر:Shah_Tahmasp_and_Humayun.jpeg|thumb|250px|شاہ طہماسپ ہمایوں کا استقبال کرتے ہوئے]]
 
[[صفوی سلطنت]] کا دوسرا بادشاہ، (پیدائش: [[3 مارچ]] [[1514ء]]، وفات:[[1576ء]]) [[اسماعیل صفوی]] کا لڑکا تھا۔ جب تخت پر بیٹھا تو عمر صرف 10 سال تھی۔ طہماسپ کا دور بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ [[1525ء]] تا [[1540ء]] [[خراسان]] ازبکوں کے حملے کا نشانہ بنا رہا اور اس مدت میں [[محمد شیبانی خان|شیبانی خان]] کے لڑکے [[جنید خان]] نے 6 حملے کئےکیے جن سے [[ہرات]] اور [[مشہد]] وغیرہ کو بہت نقصان پہنچا۔ مغرب میں [[عراق]] کو [[سلطنت عثمانیہ|ترکوں]] نے ایرانیوں سے چھین لیا اور [[تبریز]] اور [[ہمدان]] پر ترک کئی برس قابض رہے۔ ان تمام حملوں کے باوجود یہ طہماسپ اور ایران کی صلاحیت کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ انہوں نے ناسازگار حالات کے باوجود باقی ایران میں امن و امان قائم رکھا اور [[جارجیا]] یا [[جارجیا|گرجستان]] کے عیسائیوں کے خلاف 7 مہمیں بھیجیں اور گرجستان پر ایرانی قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
 
اس دور کا ایک قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ [[انگلستان]] نے عثمانی ترکوں کے مقابلے میں ایران کا تعاون حاصل کرنا چاہا اور شمالی راستے سے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے چاہے۔ اس مقصد کے لیے ملکہ [[ایلزبتھ اول]] نے ایک [[انگریز]] کو خط دے کر طہماسپ کے پاس روانہ کیا تو بادشاہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ "ہم کافروں سے دوستی نہیں کرنا چاہتے"۔
سطر 7:
یہ شاہ طہماسپ کا ہی زمانہ تھا کہ [[ظہیر الدین محمد بابر|بابر]] کا لڑکا [[نصیر الدین محمد ہمایوں|ہمایوں]] جسے [[شیر شاہ سوری|شیر شاہ]] نے [[ہندوستان]] سے نکال دیا تھا، [[1543ء]] میں ایران آیا اور طہماسپ نے اس کی خوب آؤ بھگت کی اور فوجی امداد دی جس کی وجہ سے ہمایوں دوبارہ اپنی سلطنت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوا۔
 
تبریز پر عثمانی قبضہ ہوجانے کی وجہ سے طہماسپ نے [[قزوین]] کو دارالحکومتدار الحکومت منتقل کر دیا تھا۔ طہماسپ ان مسلمان حکمرانوں میں سے ہے جنہوں نے 50 سال سے زیادہ حکومت کی۔
 
طہماسپ کے جانشینوں [[اسماعیل دوم]] اور [[محمد خدا بندہ]] کا دور غیر اہم ہے اور ان میں سے کوئی طہماسپ جیسی صلاحیتوں کا مالک نہ تھا۔ ان کے زمانے میں خراسان ازبکوں کے اور مغربی ایران عثمانیوں کے حملوں کا نشانہ بنا اور اندرون ملک بھی بدامنیبے امنی رہی۔
 
{| align=center border=1 cellspacing=0 cellpadding=4 style="background: #f9f9f9; text-align:center; border:1px solid #aaa;border-collapse:collapse;font-size:95%"