"شاہ عبد العزیز دہلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: خودکار درستی املا ← سنہ \1، شعرا، املا، سے، سے
سطر 6:
==نام و نسب==
 
'''شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی''' 25 رمضان المبارک 1159ھ بمطابق 10اکتوبر 1746ء بروز [[جمعہ]] کو [[دلی|دہلی]] میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام '''غلام حلیم''' ہے جس کے اعداد 1159 ہیں۔جس سے سنسنہ ولادت نکلتا ہے آپ کا سلسلہ نسب 34 واسطوں سے سیدنا [[عمر ابن الخطاب|عمر فاروق]] تک منتہی ہوتا ہے:<ref>دہلوی،محمد رحیم بخش ، حیات ولی، مکتبہ سلفیہ، لاہور، ص587</ref>
 
==درس و تدریس==
سطر 12:
شاہ عبد العزیز صاحب جب سترہ سال کے ہوئے تو ان کے والد بزرگوار حضرت [[شاہ ولی اللہ محدث دہلوی]] کی وفات ہوئی۔ پچیس برس کی عمر ہی سے آپ متعدد موذی امراض میں مبتلا رہنے لگے تھے اور آخر عمر تک اس میں گرفتار رہے۔ اوائل عمر ہی میں کثرت امراض کے باوجود شاہ صاحب نے مدة العمر درس و تدریس کا بازار گرم رکھا اور اپنے والد کے جانشین مقرر ہوئے۔<ref>دہلوی،محمد بیگ ،مرزا،دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص4</ref>
== وصال ==
چنانچہ اسّی برس کی عمر میں 9/شوال 1239ھ /1823/ کو یک شنبہ کے روز وفات پائی۔ مختلف شعراءشعرا نے تاریخ وفات کہی، جن میں حکیم مومن خان دہلوی کے قطعہ تاریخ اس فن کی ایک نادر مثال ہے۔
دست بیداد اجل سے بے سر و پا ہو گئے
فقر و دین، فضل و ہنر، لطف و کرم، علم و فضل<ref>دہلوی،محمد بیگ ،مرزا،دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص10</ref>
==تصنیف و تالیف==
شاہ عبد العزیز صاحب نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امراض کی شدت اور آنکھوں کی بصارت زائل ہونے کے سبب بعض کتابوں کو آپ نے املاءاملا کرایا ہے۔<ref>عبد الحئی،مولانا،نزہۃ الخواطر، ج7،ص273</ref> اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
* [[تحفۂ اثنا عشریہ]]
یہ فارسی زبان میں رد شیعیت میں بے مثال کتاب ہے، جس کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کا عربی اور اردو میں ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
سطر 27:
* [[تفسیر فتح العزیز]] معروف بہ [[تفسیر عزیزی]]
یہ ان کی مشہور تفسیری تصنیف ہے، جس کی صرف چار جلدیں دو اول کی اور دو آخر کی ملتی ہیں۔ یہ بھی فارسی میں ہے۔ ان کے علاوہ بلاغت، کلام، منطق اور فلسفے کے موضوعات پر بھی شاہ صاحب نے متعدد رسالے اور حاشیے فارسی اور عربی زبان میں لکھے ہیں۔<ref>عبد الحئی،مولانا،نزہۃ الخواطر، ج7،ص273،274</ref>
یہ تفسیر نامکمل صورت میں پائی جاتی ہے۔ سورة فاتحہ اور سورة البقرہ کی ابتدائی ایک سورت چوراسی آیتوں کی تفسیر پہلی دو جلدوں میں اور آخر کے دو پاروں کی تفسیر علاحدہ علاحدہ جلدوں میں ہیں۔ یہ جلدیں متعدد بار شائع ہو چکی ہیں۔ تفسیر کے مقدمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاہ صاحب کے ایک شاگرد شیخ مصدق الدین عبد اللہ تھے، جن کی تحریک پر یہ تفسیر لکھی گئی اور ان ہی کو شاہ صاحب نے اس کا املاءاملا کرایا تھا اور یہ سلسلہ 1208ھ/1793/ میں مکمل ہوا۔<ref>شاہ عبد العزیز، تفسیر فتح العزیز، مطبع حیدری ، ج1، ص3،بمبئی،1294ھ۔</ref>
* [[سرالشھادتین]]
یہ واقعہ کربلا پر فارسی تالیف ہے۔