"عبرانی بائبل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← حیدرآباد، ہو گئے، کیے، سے، ہو گئی، سے، علما، کر دیے، دار العلوم، دیے، انبیا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 5:
==عبرانی بائبل کے نسخہ جات ==
 
عبرانی بائبل کے موجودہ نسخوں کا شمار دو ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ  نسخہ جات مختلف  اشیاء پر لکھے ہیں اور مختلف  حالتوں میں محفوظ ہیں۔ کوئی نسخہ  اچھی حالت میں ہے کوئی  بُری حالت میں ،میں، کوئی  پھٹا ہوا ہے ،ہے، کسی کے الفاظ  بمشکل نظر آتے ہیں۔ اور کوئی ایسا ہے کہ گویا ابھی لکھا گیا ہے۔ یہ نسخے  مختلف  ممالک سے دستیاب ہوئے ہیں۔ مثلاً  ملک [[کنعان]] سے اور [[بابل]] کی سرزمین ،سرزمین، مغربی ایشیا ،ایشیا، براعظم  افریقہ ،افریقہ، بحر ہند کے جزائر سے ،سے، غیر یہود کے کتب خانوں سے ،سے، اطالیہ اورہسپانیہ کے ممالک سے چین اورمالابار  (ہندوستان) کے یہودی  ربیوں سے اور [[مدفن (یہودیت)|کتبِ مقدسہ  کے مدفون]] سے (جہاں اہل یہود ان کو دفن کر دیتے تھے) یہ نسخہ جات  دورِ حاضرہ  میں دستیاب ہوئے ہیں۔
 
==نسخہ جات کی خصوصیت==
سطر 11:
 
==نسخوں کی تعداد==
یہ دو ہزار نسخہ جات تقریباً ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ اس امر میں عہدِ جدید کی کتب کے نسخوں کو فوقیت حاصل ہے، کیونکہ انجیلی مجموعہ کے نسخے تاحال دوسری صدی کےدستیابکے دستیاب ہوئے ہیں۔ لیکن عہد عتیق کی قدیم کتابیں قریباً  تین ہزار سال ہوئے لکھی گئی تھیں۔ ان کے نسخے  جو ہمارے پاس موجود ہیں، صرف ایک ہزار سال پرانے ہیں۔ ان میں سب سے قدیم نسخہ  تورات  کی پانچ کتابوں کا ہے جو برطانیہ کے عجائب خانہ  میں محفوظ ہے۔ لینن گراڈ میں کتُب ِ انبیا کا ایک نسخہ ہے جس کی تاریخ 916ء تبث ہے۔ آکسفورڈ میں بھی ایک نسخہ موجود ہے جس میں عبرانی کتُب مقدسہ کی تقریباً  تمام کتابیں لکھی ہیں۔ یہ نسخہ دسویں صدی کا ہے۔ پس عہد عتیق  کی آخری کتاب کی  تاریخ  تصنیف  اور ان قدیم نسخوں میں قریباً  ایک ہزار سال کا وقفہ ہے۔
 
==نسخوں کے ضائع ہونے کے اسباب==
#جب یروشلیم 70ء میں برباد ہو گیا اور قوم یہود خستہ حال اور پراگندہ  ہو گئی تو یہودی لیڈروں نے اپنی قومی روایات کو برقرار اور قائم رکھنے کےلیےکے لیے  100ء میں ایک مجلس منعقد کی ۔کی۔ اس مجلس نے ان تمام کتب  کو جواب عہد عتیق  کے مجموعہ میں شامل ہیں کتبِ مقدسہ قراردے دیا اور یوں یہ کتابیں  ضائع ہونے سے بچ گئیں۔ علاوہ ازیں  اس مجلس نے ان پاک کتابوں  کی صحت  کے ساتھ نقل کرنے کے لیے قوانین وقواعد  بھی وضع  کیے۔
#بادشاہ اینٹی اوکس ایپی فینیز (Antiochus Epiphanies) نے جو اہل یہود کا جانی دشمن تھا اپنے عہد میں 175 تا 164 قبل مسیح اہل یہود کو ایسی ایذائیں دیں جن کے تصور  سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ عبرانی کتبِ مقدسہ کے نسخہ جات  جہاں کہیں ملیں تلف کر دیے جائیں اور اگروہ کسی شخص کے پاس ملیں تو وہ جان سے مارا جائے (1مکابی 1: 54 یا 58) ظاہر ہے کہ اس ایذا رسانی کی وجہ سے  کتب مقدسہ  کے متعدد نسخے ضائع ہو گئے۔
#قرون وسطیٰ میں اور بالخصوص  صلیبی جنگوں کے زمانہ میں متعصب  مغربی مسیحی اہل یہود  سے نفرت اور کینہ رکھتے تھے اور ان کے جنون  نے عبرانی کتب مقدسہ کے بہت سے نسخے اور بالخصوص  تورات  کے نسخے  نذر آتش کردیے۔
#اہل یہود کا یہ دستور تھا ،تھا، (اور یہ دستور دورِ حاضرہ میں بھی مروج ہے) کہ کتب مقدسہ  کے نسخے جو کسی وجہ سے استعمال کےقابلکے قابل نہ رہتے تھے ،تھے، بڑے ادب سے دفن کردیے  جاتے تھے تاکہ خدا کا کلام بے حرمتی سے محفوظ رہے۔ اورگلی کوچوں میں پاؤں کے نیچے روندانہ جائے اس غرض کے لیے ہر یہودی  عبادت خانہ کے ساتھ ایک [[مدفن (یہودیت)|مدفن]] ہوتا تھا ،تھا، جہاں نہایت معمولی عیوب کی وجہ سے بھی نسخے دفن کردیے جاتے تھے۔ مثلاً اگر کسی  صفحہ پر کاتب کی دو سے زیادہ غلطیاں  بھی مل جاتیں تو وہ صفحہ احتیاطاً  دفن کر دیا جاتا۔ [[شول|یہودی عبادت خانوں]] کے نسخہ جات  کے طومار جو روزانہ تلاوت کے باعث پھٹ جاتے تھے دفن کردیے جاتے تھے ۔اہل۔ اہل یہود میں دستور تھا کہ کلام اللہ کے جس حصہ کو روزانہ  پڑھتے اس کے شروع اور آخر کے الفاظ کو بوسہ دیتے تھے اوراس طرح مدتِ مدید کے بعد یہ الفاظ  مٹ جاتے یا بخوبی نظر نہ آتے تھے ۔تھے۔ اہل یہود ایسے نسخہ جات کو بھی دفن کردیتے تھے۔
 
مذکورہ بالا اور دیگر وجوہ کے باعث ہمارے پاس کتُب عہد عتیق  کے پرانے نسخے  موجود نہیں ہیں اور جو موجود بھی ہیں وہ تقریباً سب کے سب یا تو غیر اقوام کے دار العلوم اور کتُب خانوں سے یا انہی یہودی دفن گاہوں سے دستیاب ہوئے ہیں۔
 
==حیدرآباد دکن کا نسخہ==
حال ہی میں خبر ملی<ref>The Times of India, Delhi 9th March, 1965.</ref> ہے کہ عبرانی کا ایک قدیم ترین نسخہ حیدرآباد (دکن ۔دکن۔ واقع ہندوستان) سے دستیاب ہوا ہے جو کھجور کے پتوں (Palm Leaves) پر لکھا ہے۔ یہ نسخہ عثمانیہ یونیورسٹی کی سنسکرت  اکاڈیمی میں سالہا سال سے محفوظ تھا۔ اس نسخہ  پر تورات کی پہلی کتاب پیدائش کا 37واں  باب عبرانی میں لکھا ہے۔
 
یروشلیم کی عبرانی اکاڈیمی کے فضلا اس نادر نسخہ کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ کسی یہودی  عالم نے دوہزارسال ہوئے لکھا تھا جب یروشلیم  کی تباہی  کے بعد اہل یہود جنوبی ہند نقل مکانی کرکے آ گئے تھے۔<ref>"مقدس توما رسول ہند" از علامہ برکت اللہ صفحہ 95</ref> یہ نسخہ اس لحاظ سے بھی یکتا ہے کہ دنیا بھر کے نسخوں میں یہی ایک نسخہ ہے جو کھجور کے پتوں پر لکھا ہے۔