"غزل الغزلات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ: اضافہ سانچہ ناوبکس {{سلیمان}}
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، انتہا، سے، علما
سطر 1:
{{تناخ ضم}}
یہ کتاب ایسے گیتوں پر مشتمل ہے جو [[یہودی]] ہر سال اپنی [[عید فسح]] کے موقع پر گایا کرتے تھے یا ان گیتوں کو سب کے سامنے پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔اس کتاب غزل الغزلات کے پہلے باب کی پہلی آیت سے اس طرح لگتا ہے جیسے اس کتاب کے مصنف [[حضرت سلیمان]] علیہ السلام ہوں مگر علماءعلما کا نہ صرف ان گیتوں کی تصنیف کے حوالے سے اختلاف ہے بلکہ تفسیر پر بھی اختلاف ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت کے متعلق اندازہ ہے کہ یہ 970 سے 930 [[قبل مسیح]] تھا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب دسویں صدی قبل مسیح میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کرنے کی ایک وجہ اور یہ بھی ہے کہ اس کتاب کا انداز بیان، اس کی زبان کتاب مقدس کی [[کتاب واعظ]] سے ملتا جلتا ہے۔ اس لیے اندازہ ہے کہ دونوں ہی کتابیں ایک ہی مصنف کی تحریر کردہ ہیں۔<br />
اس کتاب میں ازدواجی زندگی کے طور طریقوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ [[مشرق وسطیٰ]] کے رہنے والوں کی قدیم رسموں کے مطابق اس کتاب کی طرح کے گیت [[شادی]] بیاہ کے موقعوں پر گائے جاتے تھے، مگر اس سے یہ ہر گز نہیں کہا جاسکتا کہ اس کتاب کے گیت یہودی بھی اپنی شادی بیاہ کے موقعوں پر گاتے تھے۔ سب علماءعلما اس بات پر متفق ہیں کہ ان گیتوں میں جو ہیرو ہے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہی ہیں جن کو بادشاہ اور جوان گڈریے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مگر اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ [[بادشاہ]] اور [[گڈریا]] ایک ہی شخص کے دو روپ ہیں یا یہ دو علاحدہ شخصیات ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ خیال بھی پیش کیا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی روداد پیش کی ہے۔ اُن کے حرم میں چونکہ بہت سی بیویاں اور کنیزیں تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک الہڑ، شوخ و چنچل حسینہ کو بھی اپنے حرم میں داخل کر لیا، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حسینہ کسی [[چرواہے]] کے عشق میں گرفتار ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کسی بھی طرح اُس کے دل سے اُس چرواہے کی محبت نکالنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ جب وہ کسی طرح حسینہ کے دل سے چرواہے کا خیال نہ نکال سکے تو انہوں نے اُس حسینہ اور چرواہے کو ایک ہو جانے دیا۔ وہ چرواہا اور حسینہ شادی کر کے ایک ہو جاتے ہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام سچی محبت کا راز پا لیتے ہیں۔<br />
اس کتاب میں سمجھایا گیا ہے کہ جیسے [[دلہا]] اپنی [[دلہن]] سے وصل کی تمنا رکھتا ہے اسی طرح خدا بھی اپنی مخلوق سے ملنے کا مشتاق ہے۔ اس خدائی محبت کو [[کتاب مقدس]] کے [[عہد نامہ جدید]] میں مختلف مثالوں سے بھی سمجھایا گیا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال عہد نامہ جدید میں ایسے چرواہے کی ہے جو اپنی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں نکلتا ہے اور جب تک اُن کو پا نہیں لیتا اس چرواہے کو سکون نہیں ملتا۔<br />
اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
سطر 8:
# دلہا کی اپنی دلہن کے لیے بے قراری (باب 3 آیت 6 باب 4)
# [[عاشق]] اپنی معشوقہ کے دروازہ پر دستک دے کر چلا جاتا ہے (باب 5 تا باب 7 آیت 9)
# عاشق اور [[معشوق]] کا وصل ۔ محبت کی انتہاءانتہا (باب 7 تا باب 8)
 
== حوالہ جات ==