"عکرمہ بن ابوجہل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 23:
'''عکرمہ بن عمرو''' عکرمہ بن ابو جہل عمرو بنِ ہشام المخزومی یہ ابوجہل کے بیٹے ہیں۔
== نام ونسب ==
عکرمہ نام، باپ کا نام ابو جہل تھا، نسب نامہ یہ ہے ،عکرمہ بن ابی جہل بن ہشام ابن مغیرہ بن عبداللہعبد اللہ بن عمرو بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب بن لوئی قرشی مخزومی
ان کا لقب الراکب المہاجر تھا
== قبل از اسلام ==
عکرمہ مشہور دشمن اسلام ابو جہل کے بیٹے ہیں، باپ کی طرح یہ بھی اسلام اورمسلمانوں کے خلاف بڑی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا،اس معرکہ میں ان کا باپ معوذ اورمعاذ دو نوجوان کے ہاتھوں سے مارا گیا، باپ کو خاک وخون میں تڑپتا دیکھ کر عکرمہ نے اس کے قاتل معاذ پر ایسا وار کیا کہ معاذ کا ہاتھ لٹک گیابدر کے بعد جن لوگوں نے ابو سفیان کو مقتولین بدر کے انتقام لینے پرآمادہ کیا تھا،ان میں ایک عکرمہ بھی تھے، احد میں یہ اور خالد مشرکین کی کمان کرتے تھے، ۵ھ میں جب تمام مشرکین عرب نے اپنے قبیلوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی تو عکرمہ بھی بنی کنانہ کو لیکر مسلمانوں کے استیصال کے لیے گئے فتح مکہ میں اہل مکہ نے بغیر کسی مقابلہ کے سپر ڈال دی تھی،لیکن بعضوں نے جن میں عصبیت زیادہ تھی مزاحمت کی، ان میں ایک عکرمہ بھی تھے غرض شروع سے آخر تک اُنہوں نے ہر موقع پر اپنی اسلام دشمنی کا پورا ثبوت دیا۔ <ref>سیرۃ ابن ہشام:2/365</ref>
یہ بھاگ کر [[یمن]] چلے گئے لیکن ان کی بیوی ''اُمِ حکیم'' جو ابوجہل کی بھتیجی تھیں انہوں نے اسلام قبول کرلیااوراپنے شوہر عکرمہ کے لیے بارگاہ رسالت میں معافی کی درخواست پیش کی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے معاف فرمادیا۔ اُمِ حکیم خود یمن گئیں اور معافی کا حال بیان کیا۔ عکرمہ حیران رہ گئے اور انتہائی تعجب کے ساتھ کہا کہ کیا مجھ کو محمد {{درود}}نے معاف کر دیا! بہرحال اپنی بیوی کے ساتھ بارگاہ رسالت میں مسلمان ہوکر حاضر ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور اس تیزی سے ان کی طرف بڑھے کہ جسم اطہر سے چادر گر پڑی۔ اور ملتے ہوئے فرمایا(مَرْحَباً بِالرَّاكِبِ المُهَاجِرِ) اے ہجرت کرنے والے سوار مرحبا پھر عکرمہ نے خوشی خوشی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت اسلام کی۔ (موطا [[امام مالک]] کتاب النکاح وغیرہ)<ref>سیرتِ مصطفی، مؤلف عبد المصطفیٰ اعظمی، صفحہ449، مکتبۃ المدینہ، باب المد ینہ، کراچی۔</ref><ref>سیر اعلام البنلاء علامہ ذھبی</ref>