"قبر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
غیر ضروری مواد کا اخراج
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، اس ک\1، \1 رہا، اور، سے
سطر 5:
زیارتِ قبور جائز و [[مستحب]] بلکہ [[مسنون]] ہے۔ بلکہ [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|حضور اقدس]] صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [[شہید (اسلام)|شہدائے]] [[احد]] کی زیارت کو تشریف لے جاتے اور ان کے لیے [[دُعا|دعا]] کرتے اور یہ فرمایا بھی ہے کہ تم لوگ قبروں کی زیارت کرو، وہ دنیا میںبے رغبتی کا سبب ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے۔
 
اسلام کے ابتدائی دور میں جن امور سے کچھ مختصر مدت کے لیے روک دیا گیا تھا اور وہ منع تھے۔ وہ قبور کی زیارت تھی، اس منع کی بہت سی دلیلیں تھیں یہاں تک کہ اسلامی سماج کی وسعت اور اس کی ترقی کے ساتھ اس بات کے لیے ایک مناسب ماحول پیدا ہوا، لھذا پیغمبر اکرم نے کچھ مدت کے بعد زیارت قبور کو جائز قرار دیا اور مسلمانون کو زیارت قبور کے آداب اور اسکیاس کی کیفیت سے آگاہ کیا۔
==== زیارت قبور سے رکاوٹ اٹھانے کی کیفیت اور تاریخ ====
اختصار کے ساتھ جو کچھ بیان ہوا، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ابتدائی دور میں قبور کی زیارت سے منع کیا لیکن یہ رکاوٹ زیادہ دیر تک نہ رہی اور مناسب زمینہ فراھم ہوتے ہی ہجرت کے ساتویں سال میں عمرہ حدیبیہ کے دوران میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اور وہاں ان کی قبر شریف کی مرمت کی ،<ref>ابن سعد الطبقات الکبری ، ج 1۔، ص 94، بیروت دار الکتب العلمیۃ ، طبع اول 1410ھ</ref> نبی محمد نے ان کے مزار پر ایسے گریہ کیا کہ جو مسلمان آنحضرت کے ساتھ تھے وہ بھی متاثر ہوئے اور انہوں نے بھی گریہ کیا آنحضرت نے فرمایا :خداوند نے محمد کو اپنی ماں کی قبر مطہر کی زیارت کی اجازت دی ہے آنحضرت نے یہ بھی فرمایا کہ میں پہلے آن لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا لیکن اب قبور کی زیارت کے لیے جاو۔<ref>صالحی ، شامی سبل الھدی ، ج 8، ص 384۔ بیروت دار الکتب العلمیۃ طبع اول ، 1414ھ</ref>
سطر 12:
قبروں کی زیارت کرو وہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی
 
قبرستان میں جاکر پہلے تو ان کو سلام کہنا چاہیے، اس کے الفاظ حدیث میں یہ آتے ہیں: “السلام علیکم یا اھل الدیار من الموٴمنین والمسلمین وانا انشاء اللہ بکم للاحقون، نسأل اللہ لنا ولکم العافیة۔” اور پھر جس قدر ممکن ہو ان کے لیے دُعا و اِستغفار کرے،کرے اور قرآن مجید پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے۔ بعض روایات میں سورہٴ یٰسین، سورہٴ تبارک الذی، سورہٴ فاتحہ سورہٴ زلزال، سورہٴ تکاثر اور سورہٴ اِخلاص اور آیت الکرسی کی فضیلت بھی آئی ہے۔
 
حافظ سیوطی نے “شرح الصدور” میں اس مسئلے پر متعدّد روایات نقل کی ہیں کہ میّت ان لوگوں کو جو اس کی قبر پر جائیں، دیکھتی اور پہچانتی ہے اور ان کے سلام کا جواب دیتی ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: “جو شخص اپنے موٴمن بھائی کی قبر پر جائے، جس کو وہ دُنیا میں پہچانتا تھا، پس جاکر سلام کہے تو وہ ان کو پہچان لیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے۔” یہ حدیث “شرح صدور” میں حافظ ابنِ عبدالبر کی “استذکار” اور “تمہید” کے حوالے سے نقل کی ہے،ہے اور لکھا ہے کہ محدث عبدالحق نے اس کو “صحیح” قرار دیا ہے۔(ص:88)
 
==== قبرستان میں عورتوں کا جانا ====
عورتوں کا قبروں پر جانا واقعی اختلافی مسئلہ ہے، اکثر اہلِ علم تو حرام یا مکروہِ تحریمی کہتے ہیں،ہیں اور کچھ حضرات اس کی اجازت دیتے ہیں، یہ اختلاف یوں پیدا ہوا کہ ایک زمانے میں قبروں پر جانا سب کو منع تھا، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی، بعد میں حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا: “قبروں کی زیارت کیا کرو، وہ آخرت کی یاد دِلاتی ہیں۔”
 
# عورتوں کے قبرستان جانے پر اختلاف ہے، صحیح ہے یہ کہ جوان عورت کو تو ہرگز نہیں جانا چاہیے، بڑی بوڑھی اگر جائے اور وہاں کوئی خلافِ شرع کام نہ کرے تو گنجائش ہے۔
سطر 26:
 
=== زیارت قبور کا مستحب طریقہ ===
قبر کی زیارت کو جانا چاہیے تو مستحب یہ ہے کہ پہلے اپنے مکان میں دو رکعت نماز نفل پڑھے، ہر رکعت میں بعد فاتحہ آیت الکرسی ایک بار اور قل ہو اللہ تین بار پڑھے اور اس نماز کا ثواب میت کو پہنچائے، اللہ تعالٰی میت کی قبر میں نور پیدا کرے گا اور اس شخص کو بہت بڑا ثواب عطا فرمائے گا۔ اب قبرستان کو جائے تو راستہ میں فضول باتوں میں مشغول نہ ہو۔ جب قبرستان پہنچے جوتے اتارے اور پائنتی کی طرف سے جا کر اس طرح کھڑا ہو کر قبلہ کو پیٹھ ہو اور میت کے چہرے کی طرف منہ، سرہانےس رہانے سے نہ آئے کہ مےّت کے لیے باعث تکلیف ہے یعنی مےّت کو گردن پھیر کر دیکھنا پڑتا ہے کہ کون آیا اور اس کے بعد یہ کہے:
{{اقتباس| {{ع}}السلام علیکم یا اھل القبور یغفر اللہ لنا ولکم انتم لنا سلف ونحن بلاثر}}
یا یوں کہے:
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/قبر»