"نظام الدین احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م حوالہ جات ٹیگ کا خودکار اندراج
م خودکار: خودکار درستی املا ← ہو گیا، لیے، سے، ابتدا، == مزید دیکھیے ==، سر انجام، سے
سطر 4:
 
==سوانح==
خواجہ نظام الدین احمد کی پیدائش [[958ھ]]/ [[1551ء]] میں ہوئی۔ اُن کے والد خواجہ مقیم ہروی جو [[ہرات]] کے باشندے تھے، [[مغل شہنشاہ]] [[ظہیر الدین محمد بابر]] کے دیوان تھے اور [[نصیر الدین محمد ہمایوں|ہمایوں]] کے عہد حکومت میں وزیر کے منصب پر فائز کیے گئے اور [[عسکری مرزا]] کے ہمراہ [[گجرات، بھارت|گجرات]] چلے گئے اور [[جلال الدین اکبر|اکبر]] کے عہد حکومت میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ہو گیا۔ خواجہ نظام الدین احمد معاملہ فہمی میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور [[جلال الدین اکبر|اکبر]] اِن کی قابلیت کا قدردان تھا۔ دوست پرستی میں ضرب المثل کے طور پر مشہور تھے۔ خواجہ نظام الدین اولاً [[گجرات، بھارت|گجرات]] اور پھر [[جونپور]] میں بخشی گری کی خدمات سرانجامسر انجام دینے کے بعد آصف خان کے ہمراہ مرزا جعفر جلال روشنائی کی بغاوت فرو کرنے کے لئےلیے روانہ کیے گئے لیکن [[دریائے راوی]] کے کنارے 45 سال کی عمر میں 23 [[صفر]] [[1003ھ]]/ [[7 نومبر]] [[1594ء]] کو خواجہ نظام الدین کا انتقال ہوگیا۔ہو گیا۔ خواجہ نظام الدین کے انتقال پر [[جلال الدین اکبر|اکبر]] کو بہت ملال ہوا اور [[ملا عبدالقادر بدایونی]] نے ماتمی قصیدہ لکھا۔ <ref>نبی احمد سندیلوی: تذکرہ مورخین،  صفحہ 45، مطبوعہ مطبع سلیمانی، بنارس۔ 1936ء</ref>{{نمونہ کلام آغاز}}
<div style='text-align: center;'>
{{نمونہ کلام شعر|'''رفت مرزا نظام الدین احمد '''|'''سوئے عقبیٰ و چست زیبا رفت'''}}
سطر 19:
===== طبقات اکبری =====
* مزید دیکھیں: [[میر محمد معصوم بکھری|'''میر محمد معصوم بکھری''']]
طبقات اکبری [[بھارت|ہندوستان]] کی عام تاریخ ہے جس کی ابتداءابتدا [[سبکتگین|ابو منصور سبکتگین]] کے عہد حکومت یعنی [[367ھ]]/[[977ء]] سے ہوتی ہے اور اختتام [[1002ھ]]/ [[1594ء]] کے واقعات پر ہوتا ہے۔[[ملا عبدالقادر بدایونی]] نے اِس کتاب کو طبقات اکبرشاہی کے نام سے یاد کیا ہے۔ مصنف روضۃ الطاہرین نے اِس کا نام سلطان نظامی بھی لکھا ہے لیکن تاریخی نام طبقات اکبری ہی مشہور ہے۔ طبقات اکبری کا ماخذ 26 معتبر و مستند کتب ہائے تواریخ ہیں اور اِس کے علاوہ [[میر محمد معصوم بکھری]] بھی اِس کی تدوین میں شریک رہے۔بعد ازاں جن مؤرخین نے عہد [[جلال الدین اکبر|اکبری]] کی تواریخ مرتب کی ہیں، اُن کا ماخذ طبقات اکبری ہی رہا ہے۔<ref>نبی احمد سندیلوی: تذکرہ مورخین،  صفحہ 43، مطبوعہ مطبع سلیمانی، بنارس۔ 1936ء</ref> مؤرخ [[رومیش چندر مجمدار]] کی تحقیق کے مطابق طبقات اکبری کا ماخذ 29 کتب ہیں۔<ref>Majumdar, R.C. (ed.) (2006). ''The Delhi Sultanate'', Mumbai: Bharatiya Vidya Bhavan, p.757</ref>
 
== مزید دیکھیںدیکھیے ==
* [[منتخب التواریخ]]