"لعزر کو زندہ کرنا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، سے، ہو گئے، سے، کر دیں، \1 رہا، سو گیا، \1 رہے، غیظ و غضب
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 14:
"میں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن جی اٹھے گا۔"{{سخ}}
یسوع نے اس سے کہا:{{سخ}}
"قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا، کیا تو اس پر ایمان رکھتی ہے؟{{سخ}}"اس نے اس سے کہا اے خداوند ،خداوند، میں ایمان لاچکی ہوں کہ خدا کا بیٹا مسیح جو دنیا میں آنے والا تھا تو ہی ہے۔{{سخ}}
"یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور چپکے سے اپنی بہن مریم کو بلا کر کہا استاد یہیں ہے اور تجھے بلاتا ہے۔ وہ سنتے ہی جلد اٹھ کر اس کے پاس آئی۔ (یسوع ابھی گاؤں میں نہیں پہنچا تھا بلکہ اسی جگہ تھا جہاں مرتھا اس سے ملی تھی)۔ پس جو یہودی گھر میں اس کے پاس تھے اور اسے تسلی دے رہے تھے یہ دیکھ کر کہ مریم جلد اٹھ کر باہر گئی اس خیال سے اس کے پیچھے ہولیے کہ وہ قبر پر رونے جاتی ہے۔{{سخ}}
"جب مریم اس جگہ پہنچی جہاں یسوع تھا اور اسے دیکھا تو اس کے قدموں میں گر کر اس سے کہا اے خداوند! اگر تو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔{{سخ}}
"جب یسوع نے اسے اور ان یہودیوں کو جو اس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دل میں نہایت رنجیدہ ہوا اور گھبرا کر کہا تم نے اسے کہا رکھا ہے؟{{سخ}}
"انہوں نے کہا اے خداوند! چل کر دیکھ لے ۔لے۔ یسوع کے آنسو بہنے لگے۔ پس یہودیوں نے کہا دیکھو وہ اس کو کیسا عزیز تھا۔ لیکن ان میں سے بعض نے کہا کیا یہ شخص جس نے اندھے کی آنکھیں کھولیں اتنا نہ کرسکا کہ یہ آدمی نہ مرتا؟ یسوع پھر اپنے دل میں نہایت رنجیدہ ہوکر قبر پر آیا ۔وہ۔ وہ ایک غار تھا اور اس پر پتھر دھرا تھا۔"<ref>انجیل شریف بہ مطابق یوحنا باب 11 آیت 17 تا 38</ref> اور جلد ہی آپ بہ نفس نفیس قبر سے زندہ ہو کر اپنے اس دعوے کی صداقت پر مہر لگانے والے تھے۔ چنانچہ آپ نے لعزر کی قبرپر کھڑے ہوکر فرمایا:{{سخ}}
"پتھر کو ہٹاؤ۔ اس مرے ہوئے شخص کی بہن مرتھا نے اس سے کہا اے خداوند! اس میں سے تو اب بدبو آتی ہے کیونکہ اسے چار دن ہو گئے۔ یسوع نے اس سے کہا کیا میں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تو ایمان لائے گی تو خدا کا جلال دیکھے گی؟ پس انہوں نے اس پتھر کو ہٹادیا۔" پھر یسوع نے آنکھیں اٹھا کر کہا۔{{سخ}}
"اے [[خدا باپ|باپ]] میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تو نے میری سن لی۔ اور مجھے تو معلوم تھا کہ تو ہمیشہ میری سنتا ہے مگر ان لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں میں نے یہ کہا تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔ اور یہ کہہ کر اس نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔ جو مرگیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اوراس کا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے ان سے کہا اسےکھولاسے کھول کر جانے دو۔"{{سخ}}
صاحب کرامات سیدنا مسیح کا یہ عظیم الشان اور بے مثل اعجاز دیکھ کر ان یہودیوں میں سے جو بی بی مریم کے ساتھ آئے تھے متعدد ایمان لائے۔ لیکن ان میں سے چند بد باطن اشخاص نے اس واقعہ کے بارے میں جاکر [[فریسی|فریسیوں]] کو خبر دی اور انہیں یسوع المسیح کے خلاف اکسایا۔{{سخ}}
چنانچہ سردار کاہن اور فریسیوں نے فوراً اپنی مجلسِ عالیہ کا اجلاس طلب کرکے کہا:{{سخ}}
"ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔ اگر ہم اسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آکر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔"{{سخ}}
پس اس دن سے وہ [[یسوع مسیح]] کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔لہذا۔ لہذا انہوں نے یہودیوں میں علانیہ نقل و حرکت ترک کردی اور وہاں سے جنگل کے نزدیک واقع ایک شہر بنام افرائیم میں چلے گئے۔<ref>انجیل شریف بہ مطابق یوحنا باب 11 آیت 39، 48، 53، 54</ref>
 
== تفسیر ==
سطر 32:
یسوع المسیح نے بی بی مرتھا اور ان تمام افراد سے جو ان پر ایمان لاتے ہیں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو{{سخ}}
"مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا"۔{{سخ}}
یسوع پر ایمان لانے والے کے لیے مرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک بیمار اور ناتواں بدن سے چھوٹ کر خدا تعالیٰ کی بہشت کی مسرتوں میں شریک ہو جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اسے ایمان لانے کے ساتھ ہی یہ خوشی اور اطمینان مل جاتا ہے کہ جسمانی موت کے بعد وہ دوزخ میں نہیں بلکہ ابد تک خدا تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں رہے گا۔ یسوع مسیح لعزر کے بارے میں کیوں روئے جبکہ وہ جانتے تھے کہ لعزر جی اٹھے گا اس کی وجہ یہ ہوگی کہ انہیں اس امر کا شدت سے احساس ہوا کہ گناہ نے خدا تعالیٰ کے اعلٰی ترین تخلیق نوع انسانی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر انسان نافرمانی نہ کرتا تو موت اس پر ہرگز وارد نہ ہو سکتی ۔موت۔ موت کا عمل دخل گناہ کا ہی نتیجہ ہے۔ یسوع مسیح اسی لیے مبعوث ہوئے کہ ابلیس کے کاموں کو مٹا کر موت کا قلع قمع کر دیں۔<ref>سیرت المسیح ابن مریم، مصنف ایک شاگرد، مترجم وکلف اے۔ سنگھ</ref>
 
== حوالہ جات ==