"لوری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
'''لوری''' ایسا کوئی بھی گیت یا شاعرانہ جملے، جو عورتیں بچوں کو سلانے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے آہستہ آہستہ سر میں گاتی ہیں۔ابہیں۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق، 2 ہزار قبل مسیح میں بھی لوری کا ثبوت ملتا ہے۔ لوری برصغیر میں لوک گیتوں کی طرح رائج رہی ہے۔ جس کی ایک ادبی اور مذہبی حثییت بھی ہے جیسے [[جھولنا (صنف نعت)|جھولنا]] جس میں [[محمد]] {{درود}} کے بچپن کو منظوم انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔
==تاریخ==
لوری کی تاریخی شہادت جو اب تک دریافت ہوئی ہے، وہ لوری کو دو ہزار قبل مسیح کے دور تک لے جاتی ہے۔ماہرینہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا میں پہلی بار لوری بچوں کو سلانے کے لیے ہی گائی گئی تھی اور دو ہزار قبل مسیح میں یہ لوری مٹی کے ایک چھوٹے ٹکڑے پر تحریر کی گئی تھی جو کھدائی کے دوران ملا ہے۔
اس ٹکڑے کو لندن کے [[برٹش میوزیم]] میں رکھا گیا ہے۔ ہتھیلی میں سما جانے والے [[مٹی]] کے اس ٹکڑے پر موجود تحریر ’كيونيفارم سکرپٹ‘ میں ہے جسے لکھائی کی ابتدائی اشکال میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔اسہے۔ اس لوری کو جہاں تک پڑھا جا سکا ہے اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ: {{اقتباس|جب ایک بچہ روتا ہے تو گھروں کا خدا ناراض ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہے۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2013/01/130123_lullabies_history_zs.shtml لوری کی تاریخ]</ref>}}
 
==لوری کے موضوعات==
لوری کے موضوعات مختلف ادوار میں تھوڑی بہت تبدیلی سے گزرے ہیں۔ کچھ ممالک میں لوری کے اندر خوف اور ڈر کا عنصر غالب ہوتا ہے، جن میں بچے کو کسی ان دیکھی مخلوق یا جنگلی جانور سے ڈرایا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال [[کینیا]] کی لوریاں ہیں، جن میں بچوں کو [[لگڑبھگا|لگڑبھگے]] سے ڈرایا جاتا ہے۔جوہے۔ جو قدیم ترین لوری مانی جاتی ہے اس میں بھی بچے کو دیوتا سے ڈرایا جا رہا ہے۔
جنوبی ایشیا کی لوری میں عام طور پر بچے کے لیے محبت اور دعا کے الفاظ ملتے ہیں، جبکہ کچھ ایسی لوریاں بھی ہوتی ہیں جن میں الفاظ نہیں ہوتے، بلکہ صرف آواز ہوتی ہے جیسے اُوں ہُوں ‘ اُوں ہُوں یا آہا آہا وغیرہ۔
 
==اقسام==
==ادب میں==
لوری کو باقاعدہ لکھا جاتا رہا ہے۔ ابھی اردو میں اس کی صنف کا رواج ختم ہے۔ اسی طرح کی ایک قسم جھولنا بھی تھی ،تھی، جس میں محمد {{درود}} کے بچپن کے واقعات منظوم کیے جاتے تھے۔<ref>محمد مطفر عالم جاوید صدیقی، اردو میں میلاد النبی {{درود}}، لاہور، فکشن ہاؤس۔ صفحہ 136-37</ref>[[1870ء]] میں [[برطانوی ہند]] میں ایک انگریز [[سرجن]] جنرل ایڈورڈبالفور نے [[اصناف ادب|اردو]] کی لوریوں میں سے کچھ کو لکھ کر لوری نامہ کے نام سے شائع کرایا، جو شاید لوریوں کا پہلا مجموعہ تھا۔ 34 صفحات کے اس کتابچے میں 18 لوریاں شامل ہیں۔<ref>[[رضا علی عابدی]] کتابیں اپنے آباء کی، لاہور، سنگ میل پبلی کیشن۔صفحہکیشن۔ صفحہ 361-63</ref>
 
==نمونہ==