"مختار مسعود" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ مساوی زمرہ جات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے، اور، یا، دیے، کی بجائے
سطر 9:
 
== عملی زندگی ==
شیخ عطاء اللہ کو علامہ محمداقبال سے بڑی عقیدت تھی، انہوں نے ’’اقبال نامہ‘‘ کے عنوان سے علامہ محمد اقبال کے خطوط دو جلدوں میں بڑی کاوش سے مرتب کیے۔ معروف اقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق ’’عقیدت مندی کے ساتھ کی جانے والی اس کاوش کے نتیجے میں مکاتبِ اقبال کا ایسا مجموعہ فراہم ہو گیا، جو تعدادِ مکاتب کے اعتبار سے آج بھی اقبال کا سب سے بڑا مجموعۂ خطوط ہے۔‘‘ شیخ عطاء اللہ پروفیسر معاشیات کے تھے، لیکن ادیب اُردو کے تھے۔ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کے مطابق شیخ عطاء اللہ نے اورنگ زیب عالم گیر کے خطوط کا ترجمہ کیا اور محمد مارماڈیوک پکتھال کے اُن خطبات کا بھی ترجمہ کیا، جو اُنہوں نے مدراس میں اسلامی کلچر کے موضوع پر دئیےدیے تھے۔ شیخ صاحب نے پکتھال کی ایک انگریزی کتاب کا بھی اُردو میں ترجمہ کیا تھا، جو ’’اورینٹل ان کاونٹرز‘‘ کے نام سے تھی۔ ظاہر ہے کہ والدکے ان علمی کاموں اور اقبال سے عقیدت کا اثر مختار مسعود پر بھی پڑنا تھا اور اسے ان کی کتابوں میں جھلکنا بھی تھا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختار مسعود اُردو، اسلام، اقبال اور پاکستان سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔
 
مختار مسعود نے علی گڑھ ہی میں بنیادی تعلیم حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ پاکستان بننے کے بعد شیخ عطاء اللہ نے اس سرزمین سے ہجرت کا فیصلہ کیا، جس کا خواب ان کے ممدوح علامہ محمداقبال نے دیکھا تھا۔ مختار مسعود بھی اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آئے اور پاکستان میں ہونے والے مقابلے کے امتحانات منعقدہ 1949ء میں شریک ہو کر کامیاب قرار پائے۔ سول سروس میں وہ مختلف اعلٰی عہدوں پر رہے، کئی اداروں کے سربراہ اور وفاقی سیکریٹری بھی رہے، جس زمانے میں لاہور میں مینارِ پاکستان زیرِ تعمیر تھا، اُس وقت اس کو ’’یادگارِ پاکستان‘‘ کہا جاتا تھا، اُسی دوران مختار مسعود لاہور کے کمشنر بن گئے اور انہوں نے اس کا نام ’’مینارِ پاکستان‘‘ کروا دیا، کیونکہ ’’یادگار‘‘ تو مرنے والوں کی ہوتی ہے اور پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ’’آوازِ دوست‘‘ میں انہوں نے بتایا ہے کہ جب وہ تعمیراتی کمیٹی کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوئے تو یہ نکتہ اٹھایا۔ لکھتے ہیں کہ
سطر 19:
’’اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں، ایک طویل اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکرِفردا ہے اور خون سے خونِ تمنا۔‘‘
 
واقعی آوازِ دوست میں انہوں نے خونِ تمنا اور خونِ جگر دونوں ہی صرف کر دئیے،دیے، ورنہ اس طرح کے نثر پارے بھلا کہاں سے آتے، جن کے بلیغ اور عالمانہ جملے قولِ زرّیں اور ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دیکھیے:
 
’’اس برِعظیم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا وہ مینارِ قراردادِ پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوارہ اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں تین صدیوں پر محیط ہے۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کےکی بجائے مفاد اور ملّت کےکی بجائے مصلحت عزیز ہو،ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جاتی ہیں۔‘‘
 
اس تاریخی شور اور تجزیے کی جھلک کئی مقامات پر ملتی ہے۔ مثلاً علی گڑھ کالج کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
سطر 27:
’’نصب ہونے والا پتھر یوں تو ایک کالج کا سنگ بنیاد تھا، مگر جس روز یہ نصب ہوا، گویا اس روز مینارِ پاکستان کی بنیادیں بھی بھری گئیں۔ لیجیے ہم علی گڑھ کی بنیادوں میں مینارِ پاکستان کی بنیادوں کو ڈھونڈ رہے تھے اور سپاس نامہ کہتا ہے کہ علی گڑھ کی بنیادیں، تاریخ کے تقاضوں میں ملیں گی۔‘‘
 
’’آوازِ دوست‘‘ کا عنوان فارسی کے ایک شعر سے مستعار ہے اور اس حقیقت کا عکاس ہے کہ محبوبِ حقیقی ہو یا مجازی، لیلیٰ ہو یا وطن، اس کی آواز بہر طور محب تک پہنچ جاتی ہے اور محب اس پر حیران بھی ہوتا ہے کہ یہ صدا مجھ تک کیسے اور کن ذرائع سے پہنچی۔ مختار مسعود کا محبوب پاکستان تھا۔ یہ کتاب ان کے اپنے دل کی بھی آواز ہے اور ان کے محبوب کی بھی، اس آواز کی تعبیر اور تفسیر اسی وقت ممکن ہے، جب آپ نے بھی کسی سے،سے ، وطن سے،سے ، محبت کی ہو اور اس محبِ صادق کے جذبہ صادق میں جزوی طور پر ہی سہی شریک ہوں، ورنہ یہ صدا آپ کی بھی سماعت سے ٹکرا کر لوٹ جائے گی اور دل تک نہ پہنچ پائے گی، اسی طرح جس طرح کئی نام نہاد دانش وروں کے لیے اس کی تفہیم ممکن نہیں ہوئی۔
 
اس کا پہلا مضمون ’’مینارِ پاکستان‘‘ اس قومی نشانِ عظمت کے توسط سے تحریکِ پاکستان کے وہ گوشے روشن کرتا ہے، جن پر تاریخ کی کتابوں میں تو روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن ہم پاکستانیوں نے انہیں محبت کی سنہری روشنی میں نہیں دیکھا۔ مختار مسعود اس مضمون میں وہ جادوئی قندیل لے کر کھڑے ہیں، جس کی سنہری روشنی میں پاکستان اور اس کی بنیادوں میں محفوظ صدیوں کا قیمتی تاریخی ورثہ جگمگا رہا ہے۔ کاش ہماری نئی نسل اور نام نہاد پڑھے لکھے سیاست دان بھی اسے پڑھ لیں۔ کتاب کا دوسرا مضمون ’’قحط الرجال‘‘ اس الم ناک حقیقت کا دل سوز احساس دلاتا ہے کہ اب ہم نے بڑے آدمی پیدا کرنے بند کر دئیےدیے ہیں، اب ہمارے ہاں بونے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔‘‘ قحط الرجال کے بارے میں مزید لکھا کہ ’’اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار اور مردم شناسی ہو تو نایاب۔‘‘ لیکن کتنی مثالیں پیش کی جائیں اور کس کس صفحے سے کہ ان کے لکھے ہوئے جملوں میں قولِ زرّیں بننے کی یہ خوبی تو اتنی کثرت سے ہے کہ کتابوں کا خاصا حصہ ہی نقل کرنا پڑے گا۔
 
’’سفر نصیب‘‘ جسے اکثر لوگ غلط طور پر ’’سفرِ نصیب‘‘ پڑھتے اور لکھتے ہیں، یوں اس خوب صورت ترکیب کا مفہوم ہی بگاڑ دیتے ہیں، یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے، جو اپنے نام کی طرح یاد رہ جانے والی باتوں سے مملو ہے۔ اس کا بھی نام ایک فارسی مصرعے سے لیا گیا ہے۔ ’’خوش نصیب‘‘ کی طرح کی اس فارسی ترکیب کا مطلب ہے ’’جس کے نصیب میں بہت سفر ہو۔‘‘ اس عنوان کے ذریعے مختار مسعود کہہ رہے ہیں کہ ’’جن کے نصیب میں سفر کثرت سے ہو، ان کے نصیب میں منزل بھی ہوتی ہے،ہے یا وہ صرف سفر کی صورت میں بھٹکتے رہتے ہیں؟ اور سفر سے مراد صرف جسمانی سفر ہی نہیں نظریاتی سفر بھی ہے، یہ سفر ذاتی اور انفرادی ہی نہیں اجتماعی اور قومی بھی ہے۔‘‘ اس میں وہ یہ سوال مختلف انداز سے کئی بار پوچھتے ہیں۔ حسبِ دستور مختصراً لکھے گئے دیباچے میں کہتے ہیں کہ ’’اس کتاب کے دو حصے ہیں، ہر حصے میں دو مضمون ہیں، ایک سفری داستان اور ایک شخصی خاکہ۔ داستان جادہ ہے اور خاکہ سنگِ میل --- ہر عمل سفر ہے اور ہر اعمال نامہ ایک سفرنامہ ہے۔‘‘ اور ہمارے قومی سفر نامے یا اعمال نامے پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’سیاست ہو یا سفر‘‘ اقتدار کی مسند ہو کہ جہاز کی نشست، کرسی کے حصول کے اصول یکساں ہوتے ہیں۔‘‘
 
مختار مسعود کو 1978ء میں چار سال کے لیے آر سی ڈی، یعنی علاقائی تعاون برائے ترقی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا اور ان کی تعیناتی تہران میں ہوئی تھی، اُس زمانے میں ایران میں شاہ کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ مختار مسعود، ایران کے اس اسلامی انقلاب کے چشم دید گواہ تھے۔ تاریخ کے اس دیوانے کو خوشی یہ تھی کہ تحریک پاکستان کے بعد ایک بار پھر تاریخ کو بنتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، بلکہ خود اس کا حصہ ہوں اور انقلاب کے معنی ایران میں پڑھ یا سن نہیں رہا، بلکہ دیکھ رہا ہوں۔ اُن کی تیسری کتاب’’لوحِ ایام‘‘ انہیں کی روداد ہے۔ شاہ کو ایران سے بھاگنا پڑا اور نئی انقلابی حکوت نے 1979ء میں آر سی ڈی کو تحلیل کر دیا، اس طرح مختار مسعود اس عالمی تنظیم کے آخری سیکریٹری جنرل ٹھہرے، جس کے رکنِ اس خطے میں سینٹو(Cento) کے رکن ممالک یعنی پاکستان، ایران اور ترکی تھے۔