"محمد بن عبد اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ: اضافہ سانچہ ناوبکس {{اقوام وشخصیات قرآن}}
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 21:
| مہر = Mohr nabawi.gif
}}
'''محمد بن عبد اللہ''' {{درود}} کی ولادت مشہور عام تاریخ کے مطابق [[12 ربیع الاول]] [[عام الفیل]] بمطابق [[570ء]] یا [[571ء]] کو ہوئی۔ آپ {{درود}} تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔<ref>انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا جلد 11</ref> آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد {{درود}} اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاءانبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ {{درود}} دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ <ref>انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا</ref>
570ء (بعض روایات میں 571ء) [[مکہ]] میں پیدا ہونے والے حضرت محمد {{درود}} پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں [[مدینہ منورہ|مدینہ]] میں ہوا، [[مکہ]] اور [[مدینہ منورہ|مدینہ]] دونوں شہر آج کے [[سعودی عرب]] میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد {{درود}} بن [[عبد اللہ بن عبد المطلب|عبداللہ]] بن [[عبدالمطلب]] بن [[ہاشم بن عبد مناف|ہاشم]] بن [[عبد مناف بن مرہ|عبد مناف]] کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ [[آمنہ بنت وہب|حضرت آمنہ]] بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت [[عبدالمطلب]] نے رکھا تھا۔ محمد {{درود}} کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ {{درود}} کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت [[اسماء نبی|نام و القاب]] ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد {{درود}} نے اپنے چچا حضرت [[ابو طالب|ابوطالب]] کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ،سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ {{درود}} عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ {{درود}} اپنا کثیر وقت [[مکہ]] سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو [[غار حرا]] کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز [[جبریل|حضرت جبرائیل]] علیہ السلام ([[ایمان بالملائکہ|فرشتہ]]) ظاہر ہوئے اور محمد {{درود}} کو اللہ کا پیغام دیا۔ [[جبرائیل]] علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
 
<blockquote style='border: 1px solid blue; padding: 2em;'>
''' اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ''' (1) {{عن}} '''خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ''' {{ع}} (2) {{عن}} -- القرآن {{ف}}
<br />
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے ) جمے ہوئے خون سے (2) <br /> سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 2
</blockquote>
 
یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد {{درود}} نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداءابتدا کی اور لوگوں کو [[توحید|خالق کی وحدانیت]] کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو [[قیامت|روزقیامت]] کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئےلیے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران میں ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما [[عرب]] میں [[اسلام]] کو ایک مضبوط [[دین]] بنا دیا، [[اسلامی ریاست]] قائم کی اور عرب میں [[اتحاد]] پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ {{درود}} کی [[محبت]] مسلمانوں کے [[ایمان]] کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی [[مسلمان]] ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی [[جان]] و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ [[قیامت]] تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔
 
== ابتدائی حالات ==
{{محمد}}
=== ولادت با سعادت ===
حضرت محمد {{درود}} سنہ ایک [[عام الفیل]] (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینے میں [[بعثت]] سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور {{درود}} کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔ ۔تھے۔۔ ۔ میں [[ابراہیم علیہ السلام]] کی دعا، [[عیسیٰ علیہ السلام]] کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'۔<ref>مشکوٰۃ ۔مشکوٰۃ۔ باب سید المرسلین {{درود}}</ref><ref>مستدرک الحاکم</ref>۔ <br />
جس سال آپ {{درود}} کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگرتھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئےگئے۔<ref>خصائصِ کبریٰ جلد اول صفحہ 48</ref> ۔ <br />
آپ {{درود}} کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماءعلما 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ {{درود}} کا نام آپ کے دادا حضرت [[عبدالمطلب]] نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ {{درود}} کی ولادت [[مکہ]] کے علاقے [[شعب ابی طالب]] کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔
 
=== خاندانِ مبارک ===
{{اس|نسب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم}}
آپ {{درود}} کا تعلق [[قریش]] [[عرب]] کے معزز ترین قبیلہ [[بنو ہاشم]] سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ،شرافت، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت [[ابراہیم علیہ السلام]] کے دین پر تھا جسے [[دین حنیف|دینِ حنیف]] کہتے ہیں۔ آپ {{درود}} کے والد [[عبد اللہ بن عبد المطلب|عبداللہ]] بن [[عبدالمطلب]] اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ {{درود}} کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیاہو گیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت [[حضرت آمنہ بنت وہب|آمنہ بنت وہب]] تھا جو قبیلہ بنی زہرہ کے سردار [[وہب بن عبد مناف|وہب]] بن [[عبد مناف بن قصی|عبدمناف]] بن [[قصی بن کلاب|قصی]] بن [[کلاب بن مرہ|کلاب]] کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوہر [[عبداللہ بن عبدالمطلب|عبداللہ]] بن [[عبدالمطلب]] کے ساتھ [[عبد مناف بن قصی]] کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ {{درود}} کے دادا [[عبدالمطلب]] قریش کے سردار تھے۔ آپ {{درود}} کا شجرہ نسب حضرت [[عدنان]] سے جا ملتا ہے جو حضرت [[اسماعیل علیہ السلام]] ابن حضرت [[ابراہیم علیہ السلام]] کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے۔
<br />
محمد بن [[عبداللہ بن عبدالمطلب|عبداللہ]] بن [[عبدالمطلب]] بن [[ہاشم بن عبد مناف|ہاشم]] بن [[عبد مناف بن قصی|عبد مناف]] بن [[قصی بن کلاب|قصی]] بن [[کلاب بن مرہ|کلاب]] بن [[مرہ بن کعب|مرہ]] بن [[کعب بن لوی|کعب]] بن [[لوی بن غالب|لوی]] بن [[غالب بن فھر|غالب]] بن [[فھر بن مالک|فہر]] بن [[مالک بن نضر|مالک]] بن [[نضر بن کنانہ|نضر]] بن [[کنانہ بن خزیمہ|کنانہ]] بن [[خزیمہ بن مدرکہ|خزیمہ]] بن [[مدرکہ بن الیاس|مدرکہ]] بن [[الیاس بن مضر|الیاس]] بن [[مضر بن نزار|مضر]] بن [[نزار بن معد|نزار]] بن [[معد بن عدنان|معد]] بن [[عدنان]] <br />
(عربی میں :'''محمد بن عبداللهعبد الله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانۃ بن خزيمۃ بن مدركۃ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان''')
 
=== بچپن ===
{{اسلام}}
آپ {{درود}} کے والد محترم حضرت [[عبد اللہ بن عبد المطلب|عبداللہ]] ابن [[عبدالمطلب]] آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت [[عبدالمطلب]] نے کی۔ اس دوران میں آپ {{درود}} نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران میں آپ {{درود}} کو [[حلیمہ سعدیہ|حضرت حلیمہ بنت عبداللہ]] اور [[حضرت ثویبہ]] (درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور [[بنو ہاشم]] کے نئے سردار حضرت [[ابو طالب]] نے سرانجامسر انجام دیں۔ حضرت محمد {{درود}} نے حضرت [[ابو طالب]] کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک [[بحیرا]] نامی عیسائی راہب نے آپ {{درود}} میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت [[ابو طالب|ابوطالب]] کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ {{درود}} کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت [[ابو طالب|ابوطالب]] نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔گئے۔۔<ref>تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 34</ref> اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت {{درود}} کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذراگزرا ہوگا بلکہ آپ {{درود}} میں [[نبوت]] کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ {{درود}} بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں [[حبشہ]] کے کچھ عیسائیوں نے آپ {{درود}} کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور {{درود}} کو [[مکہ]] لوٹا دیا گیا۔ <ref>سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 177</ref>۔<ref>تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 575</ref>۔
 
== شام کا دوسرا سفر اور شادی ==
تقریباً25 سال کی عمر میں آپ {{درود}} نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت [[خدیجہ علیہا السلام]] کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد {{درود}} نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ {{درود}} دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی [[تجارت]] کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ {{درود}} یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لئےلیے بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور {{درود}} کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی [[ورقہ بن نوفل]] کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً [[نبی]] ہیںہیں۔<ref>البدایہ و النہایہ جلد 2 صفحہ 294</ref>۔ آپ حضرت محمد {{درود}} کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ {{درود}} کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ {{درود}} نے حضرت [[ابو طالب|ابوطالب]] کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ {{درود}} کی عمر 25 سال تھی۔حضرتتھی۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ {{درود}} کی چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور [[فاطمۃ الزھراء|حضرت فاطمہ]] پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق [[فاطمۃ الزھراء|حضرت فاطمہ]] علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کی بھانجیاں تھیں۔
 
== بعثت (پہلی وحی) ==
حضرت محمد {{درود}} غوروفکرغور و فکر کے لئےلیے مکہ سے باہر ایک [[غار حرا]] میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت [[العلق|سورۃ العلق]] کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور {{درود}} کی عمر مبارک تقریباًًًًً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں [[حضرت خدیجہ]] {{رض مو}}، آپ کے چچا زاد [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] {{ع مذ}} آپ {{درود}} کے قریبی دوست [[عبداللہ ابن ابی قحافہ|حضرت ابوبکر صدیق]] رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور [[صحابی]] حضرت [[زید بن ثابت]] {{رض مذ}} آپ {{درود}} پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت [[ابوذر غفاری]] {{رض مذ}} تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ {{درود}} نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباًًًًً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ {{درود}} نے [[دعوتِ ذوالعشیرہ]] کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔
 
== مخالفت ==
جیسے جیسے [[اسلام]] قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ {{درود}} کو اپنے لئےلیے خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ {{درود}} کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ ''''اللہ'''' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ {{درود}} نے اپنے ساتھیوں کو [[حبشہ]] جہاں ایک عیسائی بادشاہ [[نجاشی]] حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔
 
619ء میں آپ {{درود}} کی بیوی حضرت [[حضرت خدیجہ|خدیجہ]] اور آپ {{درود}} کے پیارے چچا حضرت [[ابو طالب|ابوطالب]] انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور {{درود}} نے اس سال کو [[عام الحزن]] یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
سطر 63:
== معراج ==
[[ملف:Al aqsa moschee 2.jpg|thumb|مسجد{{زیر}} اقصیٰ، جہاں سے سفر{{زیر}} معراج کی ابتداء ہوئی]]
620ء میں آپ {{درود}} [[معراج]] پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران میں آپ {{درود}} مکہ سے [[مسجد اقصٰی|مسجد اقصیٰ]] گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ {{درود}} آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ {{درود}} کو [[جنت]] اور [[دوزخ]] دکھائی۔ وہاں آپ کی ملاقات مختلف [[انبیاء|انبیائے کرام]] سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں [[نماز]] بھی فرض ہوئی۔ہوئی۔۔<ref>مناقب شہر آشوب جلد اول صفحہ 43</ref>۔
 
== مدنی زندگی ==
سطر 69:
622ء تک مسلمانوں کے لیے [[مکہ]] میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد {{درود}} کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ {{درود}} نے مسلمانوں کو [[مدینہ منورہ|مدینہ]] ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ {{درود}} نے اللہ کے حکم سے حضرت [[عبداللہ ابن ابی قحافہ|ابوبکر]] کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت [[علی بن ابی طالب]] علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور {{درود}} کے مدینہ پہنچنے پر انصار نے ان کا شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ {{درود}} مدینہ پہنچے تو [[انصار]] استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
<blockquote style='border: 1px solid blue; padding: 2em;'>
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیاہو گیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
</blockquote>
آپ {{درود}} کی اونٹنی حضرت [[ابو ایوب انصاری]] کے گھر کے سامنے رکی اور حضور {{درود}} نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور {{درود}} نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو [[مسجد نبوی]] کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور {{درود}} نے مسلمانوں کے درمیان میں [[عقد اخوت|عقدِ مؤاخات]] کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت [[علی ابن ابی طالب|علی علیہ السلام]] کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجرین کی مثالی مدد کی۔ [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کے ساتھ ہی [[اسلامی تقویم]] کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، [[اوس]] اور [[خزرج]]، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ {{درود}} کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ہونے والے معاہدہ '[[میثاق مدینہ]]' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔
سطر 77:
{{تفصیلی مضمون|میثاق مدینہ}}
 
[[میثاق مدینہ]] کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان میں جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ <ref>ابو داؤد السجستانی ۔ سننالسجستانی۔ ۔سنن۔ دار الاحیاء السنۃ النبویۃ۔ بیروت</ref>
<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت</ref>
<ref>ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعۃ الثانیۃ 1978ء</ref>
<ref>محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃالسیاسیۃ، ، دارالارشاد ،دارالارشاد، بیروت</ref>
<ref>ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء</ref>
<ref>محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء</ref>
سطر 86:
 
=== یہود و مشرکین کی سازشیں ===
میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد {{درود}} اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد {{درود}} کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور {{درود}} کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور {{درود}} کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعراءشعرا نے حضرت محمد {{درود}} کے خلاف [[ہجو]] لکھیں۔ ایک کا نام [[کعب بن الاشرف]] تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام [[اسماء بنت مروان]] تھا اور تیسرے کا نام [[ابوعفک]] تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گزر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد {{درود}} کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ [[کعب بن الاشرف]] کو ان کی ایک رشتہ دار [[ابونائلہ]] نے قتل کیا۔ [[اسماء بنت مروان]] کو ان کے ہم قبیلہ ایک نابینا صحابی [[عمیر بن عوف]] نے قتل کر دیا۔ [[ابو عفک]] کو حضرت [[سالم بن عمیر]] نے قتل کیا۔ <ref>[http://www.express.com.pk/epaper/Article.aspx?newsID=1100371405&Date=20080318&Issue=NP_LHE حرفِ زار از اوریا مقبول جان]</ref>
 
=== جنگیں ===
سطر 93:
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور {{درود}} شریک تھے انہیں [[غزوہ]] کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں [[سریہ]] کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
* [[غزوۂ بدر|غزوہ بدر]] : [[17 رمضان]] [[2ھ]] ([[17 مارچ]] [[624ء]]) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان میں [[غزوۂ بدر|غزوہ بدر]] ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت [[علی بن ابی طالب|علی]] علیہ السلام کی تلوار سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔
* [[غزوہ احد]] :[[7 شوال]] [[3ھ]] ([[23 مارچ]] [[625ء]]) میں ابوسفیان کفار کے 3000 نفری لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ [[غزوہ احد]] کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ [[خالد بن ولید]] نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئےلیے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم {{درود}} کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔
* [[غزوہ خندق]] (احزاب): [[شوال]]۔ [[ذوالقعدہ|ذی القعدہ]] [[5ھ]] ([[مارچ]] [[627ء]]) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت [[سلمان فارسی]] کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
* [[غزوہ بنی قریظہ]]: [[ذوالقعدہ|ذی القعدہ]] ۔ [[ذی الحجہ]] [[5ھ]] (اپریل [[627ء]]) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
* [[غزوہ بنی مصطلق]]: [[شعبان]] [[6ھ]] ([[دسمبر]] [[627ء]]۔ [[جنوری]] [[628ء]]) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔
* [[غزوہ خیبر]]: [[محرم (مہینہ)|محرم]] [[7ھ]] ([[مئی]] [[628ء]]) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
* [[جنگ موتہ|جنگِ موتہ]]: [[5 جمادی الاول]] [[8ھ]] ([[اگست]] ۔ [[ستمبر]] [[629ء]]) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور {{درود}} شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔
* [[فتح مکہ|غزوہ فتح (فتحِ مکہ)]]: رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے [[مکہ]] فتح کیا۔ جنگ تقریباًًًًً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔
* [[غزوہ حنین]]: شوال [[8ھ]] (جنوری ۔جنوری۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔
* [[غزوہ تبوک]]: [[رجب]] [[9ھ]] (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔
 
سطر 108:
 
=== حکمرانوں کو خطوط ===
[[صلح حدیبیہ]] کے بعد محرم 7ھ میں حضور {{درود}} نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط [[ترکی]] کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ [[خسرو پرویز]]، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، [[مصر]] اور [[اسکندریہ]] کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور {{درود}} نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ [[نجاشی]] نے حضور {{درود}} کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ [[مصر]] اور [[اسکندریہ]] کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور {{درود}} کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ کو روانہ کیا جن سے حضور {{درود}} کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔ہوئی۔۔<ref>الطبقات الکبریٰ جلد اول صفحہ 260 تا 262</ref>۔
 
== فتح مکہ ==
سطر 117:
3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔
 
قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئےلیے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم {{درود}} نے اس کی درخواست رد کر دی۔ نبی اکرم {{درود}} اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔
 
630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ [[مکہ]] کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم {{درود}} نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم {{درود}} فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔
سطر 123:
== حجۃ الوداع ==
{{تفصیلی مضمون|حجۃ الوداع}}
حضور {{درود}} نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے [[حجۃ الوداع]] کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ {{درود}} کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ {{درود}} نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ {{درود}} مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ {{درود}} نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو [[خطبہ غدیر]] کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباًًًًً تین ماہ بعد آپ {{درود}} اللہ کو پیارے ہو گئے۔ <ref>سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 603</ref>
 
== وفات ==
سطر 130:
 
آپﷺ کو منگل کے روز کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا۔ رسول اللہ کو غسل دینے والے افراد میں سیدنا عباس ،حضرت اسامہ،اوس بن خولیٰ، حضرت عباس کے دو صاحبزادے قثم اور فضل اور رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام شقران شامل تھے۔ حضرت عباس اور ان کے دونوں صاحب زادے رسول اللہﷺ کی کروٹ بدل رہے تھے، حضرت اسامہ اور شقران پانی بہا رہے تھے۔ حضرت علی غسل دے رہے تھے اور حضرت اوس نے آپﷺ کو اپنے سینے پر ٹیک رکھا تھا۔<ref>سنن ابن ماجہ،الکتاب الجنائز،حدیث 1628</ref>
رسول اللہ کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین بار غسل دیا گیا۔ پانی عرس نامی قباء میں واقع حضرت سعد بن خثیمہ کے کنویں کا تھا۔ آپﷺ اپنی حیات مبارکہ میں بھی پینے کے لئےلیے اس کنویں کا پانی استعمال فرماتے تھے۔<ref>طبقات ابن سعد</ref>
پھر آپ {{درود}} کو تین سفید سوتی یمنی چادروں میں کفنایا گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی بس آپ کو صرف چادروں میں لپیٹا گیا۔<ref>صحیح البخاری،حدیث :1264</ref>
حضرت ابوطلحہ نے آپ کی قبر اسی جگہ کھودی جہاں آپ نے وفات پائی تھی۔ قبر لحد والی کھودی پھر آپ کی چارپائی قبر کے کنارے رکھ دی گئی اور پھر دس دس صحابہ اندر داخل ہوتے جاتے اور فرداً فرداً نماز ادا کرتے، کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپ کے خانوادے نے نماز پڑھی، پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے اور پھر بچوں نے، پھر عورتوں نے یا پہلے عورتوں نے پھر بچوں نے۔<ref>موطا امام مالک 231/1، و طبقات ابن سعد 292-298</ref>
نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا ہی دن اور منگل کی بیشتر رات گزر گئی جس کے بعد رات کے اواخر میں رسول اقدس کو سپرد خاک کردیاکر دیا گیا۔<ref>مسند احمد 62/6 و 274</ref> جنازے میں شریک افراد کے بارے اختلاف ہے۔
 
== امہات المؤمنین اور اولاد ==
سطر 139:
{{حضرت محمد کی اولاد}}
 
حضور {{درود}} کی مختلف روایات میں گیارہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔جنہیں۔ جن عورتوں سے آپﷺ نے عقد فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی۔ جن میں سے نو عورتیں آپﷺ کی رحلت کے وقت حیات تھیں۔ اور دوعورتیں آپﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھیں۔ (یعنی حضرت خدیجہؓ اور ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما ) ان کے علاوہ مزید دوعورتیں ہیں جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپﷺ کا ان سے عقد ہوا تھا یا نہیں لیکن ا س پر اتفاق ہے کہ انہیں آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کیا گیا۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 634">الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 634</ref> نبی کریم ﷺ کی ازواج میں زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور {{درود}} پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی۔ حضور {{درود}} کی ازواج کو [[امہات المؤمنین]] کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
 
* حضرت [[حضرت خدیجہ|خدیجہ]]: آنحضرت {{درود}} کی پہلی شادی [[حضرت خدیجہ|حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما]] سے ہوئی۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔ اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔انتھی۔ ان کے جیتے جی آپﷺ نے کوئی اور شادی نہیں کی۔آپﷺکی۔ آپﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیم کے ماسوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں ا ن ہی حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان میں سے تو کوئی زندہ نہ بچا۔ البتہ صاحبزادیاں حیات رہیں۔ ان کے نام یہ ہیں : [[زینب بنت محمد|زینب]]، [[رقیہ بنت محمد|رقیہ]]، [[ام کلثوم بنت محمد|ام کلثوم]]، [[فاطمۃ الزھراء|فاطمہ]] - زینبؓ کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی۔ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی بن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ اور ان کے بطن سے حسن ،حسن، حسین رضی اللہ عنہما ،عنہما، زینب اور ا م کلثوم رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 634" />
* حضرت [[سودہ بنت زمعہ]] {{رض مو}} : ان سے رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے تقریباًًًًً ایک مہینہ بعد نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں شادی کی۔ آپﷺ سے پہلے حضرت سَوْدَہؓ اپنے چچیرے بھائی سکران بن عَمرو کے عقد میں تھیں۔ اور وہ انہیں بیوہ چھوڑ کر انتقال کر چکے تھے۔ حضرت سودہ کی وفات شوال 54ھ میں مدینہ کے اندر ہوئی۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635">الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 635</ref>
* حضرت [[زینب بنت خزیمہ]] {{رض مو}} : یہ قبیلہ بنو ہلال بن عامر بن صَعْصَعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مسکینوں پر رحم ومروت اوررقّت ورأفت کے سبب ان کا لقب اُمّ المساکین پڑ گیا تھا۔ یہ حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے عقد میں تھیں۔ وہ جنگ اُحد میں شہید ہوگئےہو گئے تو رسول اللہﷺ نے 4ھ میں ان سے شادی کرلی۔ مگر صرف تین ماہ یا آٹھ ماہ رسول اللہﷺ کی زوجیت میں رہ کر ربیع الآخر یا ذی قعدہ 4ھ میں وفات پاگئیں۔ نبیﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635" />
* حضرت [[ام سلمہ رضی اللہ عنہا|ام سلمہ]] ہند {{رض مو}} : یہ ابو سلمہؓ کے عقد میں تھیں۔ جمادی الآخر 4ھ میں حضرت ابو سلمہؓ کا انتقال ہو گیا توان کے بعد شوال 4ھ میں رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی۔ فقیہ ترین اور نہایت عقلمند خاتون تھیں۔ چوراسی سال کی عمر میں 59ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 62ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635" />
* حضرت [[صفیہ بنت حی بن اخطب]] {{رض مو}} : یہ بنی اسرائیل سے تھیں۔ اور خیبر میں قید کی گئیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمالیا۔ اور آزاد کرکے شادی کرلی۔ یہ فتح خیبر 7ھ کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد خیبر سے بارہ میل کی دوری پر مدینہ کے راستہ میں سد صہباء کے پاس انہیں رخصت کرایا۔ 50ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 52ھ میں ، اور کہا جاتا ہے کہ 36ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں مدفون ہوئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636">الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 636</ref>
* حضرت [[جویریہ بنت حارث|جویریۃ بنت الحارث]] {{رض مو}} : ان کے والد قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو المصطلق کے سردار تھے۔ حضرت جویریہ بنو المصطلق کے قیدیوں میں لائی گئی تھیں۔ اور حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ کے حصے میں پڑی تھیں۔ انہوں نے حضرت جویریہؓ سے مکاتبت کرلی۔ یعنی ایک مقررہ رقم کے عوض آزاد کردینے کا معاملہ طے کر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کی طرف سے مقررہ رقم ادا فرمادی اوران سے شادی کرلی۔ یہ شعبان 5ھ یا 6ھ کا واقعہ ہے۔ اس شادی کے نتیجے میں مسلمانوں نے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد کر دیے اورکہا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرالی ہیں۔ چنانچہ یہ اپنی قو م کے لیے ساری عورتوں سے بڑھ کر بابرکت ثابت ہوئیں۔ ربیع الاول 56ھ یا 55ھ میں وفات پائی۔ عمر 65برس تھی۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636" />
* حضرت [[میمونہ بنت حارث|میمونۃ بنت الحارث الہلالیۃ]] {{رض مو}} : یہ ام الفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے ذی قعدہ 7ھ میں عمرہ ٔ قضاء سے فارغ ہونے … اور صحیح قول کے مطابق احرام سے حلال ہونے ۔.۔کے۔ کے بعد شادی کی،کی اور مکہ سے 9میل دور مقام سرف میں انھیں رخصت کرایا۔ 61ھ اور کہا جاتا ہے کہ 63ھ میں وہیں ان کی وفات بھی ہوئی۔ اور وہیں دفن بھی کی گئیں۔ ان کی قبر کی جگہ آج بھی وہاں معروف ہے۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636" />
* حضرت [[رملہ بنت ابوسفیان|ام حبیبہ رملہ]] {{رض مو}}: یہ عبید اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ بھی گئیں تھیں۔ لیکن عبید اللہ نے وہاں جانے کے بعد مرتد ہوکر عیسائی مذہب قبول کرلیا۔کر لیا۔ اور پھر وہیں انتقال کرگیا۔ مگر اُم حبیبہؓ اپنے دین اور اپنی ہجرت پر قائم رہیں۔ جب رسول اللہﷺ نے محرم 7ھ میں عَمرو بن اُمیہ ضمریؓ کو اپنا خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تو نجاشی کو یہ پیغام بھی دیا کہ اُم حبیبہؓ سے آپﷺ کا نکاح کردے۔کر دے۔ اس نے امِ حبیبہؓ کی منظوری کے بعدان سے آپﷺ کا نکاح کردیا۔کر دیا۔ اور شُرحبیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں آپﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ نبیﷺ نے خیبر سے واپسی کے بعد ان کی رخصتی کرائی۔ 43ھ یا 44ھ یا 50ھ میں وفات پائی۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636" />
* حضرت [[حفصہ بنت عمر]] {{رض مو}} : آپ حضرت [[عمر ابن الخطاب|عمر]] {{رض مذ}} کی بیٹی تھیں۔ ان کے پہلے شوہر خنیس بن حذافہ سہمیؓ تھے جو بدر اور احد کے درمیانی عرصہ میں رحلت کر گئے اور وہ بیوہ ہوگئیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی ،کرلی، شادی کا یہ واقعہ 3ھ کا ہے۔ شعبان 45ھ میں ساٹھ سال کی عمر میں مدینہ کے اندر وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن ہوئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635" />
* حضرت [[عائشہ بنت ابی بکر]] {{رض مو}}: آپ حضرت ابوبکر {{رض مذ}} کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے نبوت کے گیارھوں برس ماہ شوال میں شادی کی، یعنی حضرت سودہؓ سے شادی کے ایک سال بعد۔ اور ہجرت سے دوبرس پانچ ماہ پہلے۔ اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال 1ھ میں انہیں رخصت کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ اور وہ باکرہ تھیں۔ ان کے علاوہ کسی اور باکرہ عورت سے آپﷺ نے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہؓ آپﷺ کی سب سے محبوب بیوی تھیں۔ اور امت کی عورتوں میں علی الاطلاق سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب علم تھیں۔ عورتوں پر ان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے تمام کھانو ں پر ثرید کی فضیلت۔ 17/ شعبان 57ھ یا 58ھ میں حضرت عائشہ ؓ نے وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635" />
* حضرت [[زینب بنت جحش]] {{رض مو}}: یہ قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور رسول اللہﷺ کی پھوپھی کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی شادی پہلے حضرت زید بن حارثہ سے ہوئی تھی۔ جنہیں رسول اللہﷺ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت زیدؓ سے نباہ نہ ہوسکاہو سکا اور انہوں نے طلاق دیدی۔ خاتمہ ٔ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرً‌ا زَوَّجْنَاكَهَا (الاحزاب: 37)''جب زید نے ان سے اپنی ضرورت ختم کر لی تو ہم نے انہیں آپ کی زوجیت میں دے دیا۔''
 
انہیں کے تعلق سے سورۂ احزاب کی مزید کئی آیا ت نازل ہوئیں جن میں مُتَبنّیٰ (لے پالک ) کے قضیے کا دوٹوک فیصلہ کردیاکر دیا گیا - حضرت زینبؓ سے رسول اللہﷺ کی شادی ذی قعدہ 5ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 4ھ میں ہوئی۔ یہ سب عورتوں سے بڑھ کر عبادت گزار اورصدقہ کرنے والی خاتون تھیں۔ 20ھ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 53سال تھی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے بعد امہات المؤمنین میں پہلی بیوی ہیں جن کا انتقال ہوا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636" />
 
یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہﷺ کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپﷺ کی صحبت ورفاقت میں رہیں۔ ان میں سے دوبیویاں ،یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکینؓ کی وفات آپﷺ کی زندگی ہی میں ہوئی۔ اور نو بیویاں آپﷺ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔ ا ن کے علاوہ دو اور خواتین جو آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ بنو کلاب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور ایک قبیلہ کندہ سے، یہی قبیلہ کِنْدہ والی خاتون جونیہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کا آپﷺ سے عقد ہوا تھا یانہیں ، اور ان کا نام ونسب کیا تھا اس بارے میں اہل ِ سیر کے درمیان میں بڑے اختلافات ہیں۔
 
جہاں تک لونڈیوں کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپﷺ نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ ایک [[ماریہ قبطیہ|ماریۃ القبطیۃ]] کو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ان کے بطن سے آپﷺ کے صاحبزادے [[ابراہیم بن محمد|ابراہیم]] پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں 28یا 29شوال 10ھ مطابق 27جنوری 632ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے۔<ref>الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 637</ref>
 
دوسری لونڈی [[ریحانہ بنت زید]] تھیں۔ جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیو ں میں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا،تھا اور وہ آپﷺ کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبیﷺ نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کرلی تھی لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبیدہعبید ہ نے ان دولونڈیوں کے علاوہ مزید دو لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے ایک کا نام جمیلہ بتایا جاتا ہے ،ہے، جوکسی جنگ میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ اور دوسری کوئی اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو ہبہ کیا تھا۔<ref>زاد المعاد 1/29</ref>
== خطوطِ نبوی ==
{{Main|خطوط نبوی}}
سطر 187:
== غیر مسلم مشاہیر کے خیالات ==
مغربی مصنف [[مائیکل ہارٹ]] نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد {{درود}} کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد {{درود}} پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔<ref>سو (The Hundred ) از مائیکل ہارٹ</ref>
تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔
گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئےکیے ہیں ۔ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئےلیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئےلیے تین شرائط اہم ہیں جن میں (1) ۔ مقصد کی بلندی ،بلندی، (2) ۔ وسائل کی کمی، (3)۔حیرت۔ حیرت انگیر نتائج ۔نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفیفلسفی، ،مبلغ، مبلغ ، پیغمبر ،پیغمبر، قانون سا ز ،ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ،فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ،والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔.۔.وہ محمد ہیں ۔.۔.جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔
<ref>http://www.kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=27_6_2008&ItemID=4&cat=9 محمد {{درود}}۔ غیر مسلموں کی نظر میں</ref>
== مزید دیکھیے ==