"مختار مسعود" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے، اور، یا، دیے، کی بجائے
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 15:
’’جب کارروائی کے لیے پہلے مسئلہ پیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجیے، تاکہ ایک اور ضروری بات پر بحث ہو سکے۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار، وہ نشانِ خیر ہے، جو مرنے کے بعد باقی رہے۔ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا و بقا کے تصور سے جدا نہ پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کر دیا۔ میز صاف کی گئی، لغات کی جگہ مینارِ پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے۔‘‘
 
مختار مسعود کا اپنی ذات اور شہرت سے بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ نہ کبھی اپنی تاریخِ پیدائش وغیرہ کے جھنجھٹ میں پڑے اور نہ کبھی کسی سے اپنی کتابوں پر فرمائشی مقدمہ لکھوایا، نہ کبھی کتابوں کی رونمائی کروائی اور نہ کسی سے اپنی تعریف میں تنقیدی مضامین لکھوائے، حالاںکہحالاں کہ اتنے بڑے عہدوں پر تھے کہ ایک اشارہ کرتے تو خوشامدیوں کی فوجِ ظفر موج ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی اور انہیں اُردو کیا، دنیا کا سب سے بڑا ادیب قرار دے دیتی، ادبی جرائد ان پر خصوصی نمبر شائع کرتے، یونی ورسٹیاں ان پر تحقیق کرواتیں اور نقاد انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے، ان پر کتابیں لکھی جاتیں، لیکن مختار مسعود ان چھوٹی باتوں سے بہت بلند تھے۔ اپنی کسی کتاب پر کسی نقاد یا محقق کی رائے شائع نہیں کی۔ اپنی تمام کتابوں کے مختصر دیباچے بھی خود ہی لکھے۔ ’’آوازِ دوست‘‘ کا دیباچہ تین سطروں پر مبنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
 
’’اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں، ایک طویل اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکرِفردا ہے اور خون سے خونِ تمنا۔‘‘
سطر 27:
’’نصب ہونے والا پتھر یوں تو ایک کالج کا سنگ بنیاد تھا، مگر جس روز یہ نصب ہوا، گویا اس روز مینارِ پاکستان کی بنیادیں بھی بھری گئیں۔ لیجیے ہم علی گڑھ کی بنیادوں میں مینارِ پاکستان کی بنیادوں کو ڈھونڈ رہے تھے اور سپاس نامہ کہتا ہے کہ علی گڑھ کی بنیادیں، تاریخ کے تقاضوں میں ملیں گی۔‘‘
 
’’آوازِ دوست‘‘ کا عنوان فارسی کے ایک شعر سے مستعار ہے اور اس حقیقت کا عکاس ہے کہ محبوبِ حقیقی ہو یا مجازی، لیلیٰ ہو یا وطن، اس کی آواز بہر طور محب تک پہنچ جاتی ہے اور محب اس پر حیران بھی ہوتا ہے کہ یہ صدا مجھ تک کیسے اور کن ذرائع سے پہنچی۔ مختار مسعود کا محبوب پاکستان تھا۔ یہ کتاب ان کے اپنے دل کی بھی آواز ہے اور ان کے محبوب کی بھی، اس آواز کی تعبیر اور تفسیر اسی وقت ممکن ہے، جب آپ نے بھی کسی سے ،سے، وطن سے ،سے، محبت کی ہو اور اس محبِ صادق کے جذبہ صادق میں جزوی طور پر ہی سہی شریک ہوں، ورنہ یہ صدا آپ کی بھی سماعت سے ٹکرا کر لوٹ جائے گی اور دل تک نہ پہنچ پائے گی، اسی طرح جس طرح کئی نام نہاد دانش وروں کے لیے اس کی تفہیم ممکن نہیں ہوئی۔
 
اس کا پہلا مضمون ’’مینارِ پاکستان‘‘ اس قومی نشانِ عظمت کے توسط سے تحریکِ پاکستان کے وہ گوشے روشن کرتا ہے، جن پر تاریخ کی کتابوں میں تو روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن ہم پاکستانیوں نے انہیں محبت کی سنہری روشنی میں نہیں دیکھا۔ مختار مسعود اس مضمون میں وہ جادوئی قندیل لے کر کھڑے ہیں، جس کی سنہری روشنی میں پاکستان اور اس کی بنیادوں میں محفوظ صدیوں کا قیمتی تاریخی ورثہ جگمگا رہا ہے۔ کاش ہماری نئی نسل اور نام نہاد پڑھے لکھے سیاست دان بھی اسے پڑھ لیں۔ کتاب کا دوسرا مضمون ’’قحط الرجال‘‘ اس الم ناک حقیقت کا دل سوز احساس دلاتا ہے کہ اب ہم نے بڑے آدمی پیدا کرنے بند کر دیے ہیں، اب ہمارے ہاں بونے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔‘‘ قحط الرجال کے بارے میں مزید لکھا کہ ’’اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار اور مردم شناسی ہو تو نایاب۔‘‘ لیکن کتنی مثالیں پیش کی جائیں اور کس کس صفحے سے کہ ان کے لکھے ہوئے جملوں میں قولِ زرّیں بننے کی یہ خوبی تو اتنی کثرت سے ہے کہ کتابوں کا خاصا حصہ ہی نقل کرنا پڑے گا۔