"مروان الثانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، \1 رہا، سے، دار الخلافہ، دیے، ہو گئی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 4:
[[تصویر:خارطة الدولة الأموية.png|thumb|250px|خلافت امویہ]]
 
مروان ثانی [[خلافت امویہ|بنو امیہ]] کا آخری حکمران تھا۔ 740ء میں [[خلیفہ]] بنا۔ مروان عمر رسیدہ ،رسیدہ، تجربہ کار ،کار، مستقل مزاج اور بہادر خلیفہ تھا۔ جب تخت نشین ہوا اس وقت اموی حکومت درہم برہم ہو چکی تھی۔ خود اموی حکومت میں اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔ دربار [[شام]] مختلف گروہ بندیوں میں بٹ چکاتھا۔ [[مضری]] اور [[یمنی]] قبائل کی کش مکش نے خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ خارجی الگ سرگرم عمل تھے اور سب سے بڑھ کر دعوت عباسی سارے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور اس کے داعی ملک کے کونے کونے میں گھوم پھر کر عوامی جذبات کو امویوں کے خلاف بھڑکا کر اپنی کامیابی کے لیے راہ ہموار کر رہے تھے۔
 
اموی حکومت کی بنیاد اور اساس عرب تھے۔ ان کی ساری کامرانیاں فوج کی وفاداریاں اور اتحاد پر مبنی تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب عربوں کی قدیم قبائلی عصبیتں جاگ اٹھی تھیں اور وہ باہم دست و گریباں تھے۔ یمنی اور مضری ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے لٰہذا فوج کی وفاداریاں بھی بٹ چکی تھیں۔ مروان نے تخت نشین ہونے کے بعد دمشق کی بجائے حران کو دار الخلافہ بنایا۔ اس تبدیلی نے شامیوں کے حاسدانہ جذبات کو برانگیختہ کیا اور وہ مروان کے خلاف متحد ہو گئے۔ اس تفریق سے عباسی داعیوں نے خوب فائدہ اٹھایا ۔اٹھایا۔ اگر شامی اپنی وفاداری اور اطاعت سے روگردانی نہ کرتے مضری اور یمنی قبائل خانہ جنگی میں مبتلا نہ ہوتے تو مروان کو عباسی دعوت کچل چینے کے لیے وقت اور وقت دونوں حاصل ہو جاتے اور ایسی صورت میں خلافت بنو امیہ کے قائم رہنے کے امکانات ہو سکتے تھے لیکن چونکہ مروان اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر [[خلافت عباسیہ|عباسی]] تحریک کو بروقت نہ دبا سکا لٰہذا انھوں نے بڑھ کر اموی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
 
== شامیوں کی بغاوت ==
 
مروان کی سب سے پہلی مخالفت شامیوں نے کی۔ شام کے مضری اور یمنی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ مروان کو مضریوں کی ہمدردیاں حاصل تھیں لیکن شام میں یمنیوں کی اکثریت تھی۔ حمص اور فلسطین کے باشندوں نے بھی مروان کی خلافت کو تسلیم نہ کیا اور اہل غوطہ نے شام پر حملہ کر دیا۔ سارے علاقے میں ابتری پھیل گئی۔ مروان نے حوصلہ سے کام لیا اور اہل حمص کو شکست دی۔ فلسطین کے باغیوں کو وہاں کے باشندوں اور بعد میں ابوالورد نے مطیع کیا لیکن اب شامیوں نے خلیفہ ہشام کے لڑکے سلیمان کو ساتھ لا کر بغاوت کر دی۔ سلیمان ستر ہزار فوج لے کر شام کی طرف بڑھا ۔بڑھا۔ دونوں افواج کا مقابلہ خساف کے مقام پر ہوا جس میں سلیمان کو شکست ہوئی اور شامی بغاوت دبا دی گئی ۔گئی۔ لیکن اب بغاوت نے اموی خلافت کی بنیادیں ہلا دیں۔
 
== عبداللہعبد اللہ بن معاویہ کی بغاوت ==
 
مروان کی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنو ہاشم اور ان کے حامی میدان میں آ نکلے۔ عبداللہعبد اللہ بن معاویہ [[حضرت جعفر طیار]] کے پوتے تھے۔ چنانچہ [[شعیان علی]] کے علاوہ [[یمن]] اور [[ربیعہ]] کے قبائل نے ان کا ساتھ دیا۔ کوفہ کے والی عبداللہعبد اللہ بن عمر نے ان کو دبانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ۔اٹھائے۔ اس دوران انھوں نے ہتھیار ڈال دیےدیے۔ ۔عبد عبداللہاللہ بن عمر نے ان کی جاں بخشی کر دی وہ [[عراق]] سے نکل کر ہمدان رے اور وہاں سے [[اصفہان]] چلے گئے جہاں اپنی حکومت قائم کر لی ابومسلم خراسانی نے انہیں قتل کر دیا۔
 
== خوارج کی بغاوتیں ==
 
مروان نے والی کوفہ عبداللہعبد اللہ بن عمر کو معزول کرکے ان کی جگہ نصر بن سعید حرشی کو مقرر کیا۔ عبداللہعبد اللہ نے نامزد گورنر کو چارج دینے سے انکار کر دیا جس پر دونوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ اس باہمی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر ضحاک بن قیس شہبائی نے بغاوت کر دی۔ یہ خوارج کا رہنما تھا ۔تھا۔ حالات کے اس طرح بگڑنے پر نصر اور عبداللہعبد اللہ دونوں نے صلح کر لی اور مل کر خوارج کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی اور خوارج نے کوفہ پر قبضہ کر لیا۔
 
اب عبداللہعبد اللہ نے ضحاک سے صلح کر لی اور مروان سے مقابلہ کے لیے [[نصیبین]] کی طرف بڑھا لیکن شکست کھائی اور مارا گیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی دیگر لیڈروں کی قیادت میں خارجی کوفہ اور بصرہ میں لڑتے رہے۔ مروان نے ابن ہبیرہ کو ان کی بیخ کنی پر مامور کیا۔ اگرچہ اس نے کئی ایک مہمات میں کامیابی حاصل کی لیکن خوارج کی طاقت کو نہ توڑا جا سکا۔ لٰہذا مروان خود ان کے مقابلہ کے لیے موصل پہنچا اور خوارج کی مسلسل ہنگامہ آرائی کا خاتمہ کرکے سرزمین حجاز کی طرف متوجہ ہوا کینوکہ اب حجاز خوارج کی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن چکا تھا
 
[[یمن]] کو بھی خارجی اپنا مرکز بنا چکے تھے۔ [[حج]] کے دنوں میں ایک [[خارجی]] سردار ابوحمزہ نے بغاوت کا آغاز کیا ۔کیا۔ والی [[مکہ]] عبدالواحدعبد الواحد مدینہ بھاگ گیا۔ حج سے فراغت کے بعد خارجیوں نے مدینہ کا رخ گیاگیا۔ ۔عبد عبدالواحدالواحد نے اہل [[مدینہ منورہ|مدینہ]] پر مشتمل ایک فوج مقابلہ کے لیے روانہ کی۔ دونوں کا مقابلہ مقام قدیر میں ہو جس میں اہل مدینہ کو زبردست شکست ہوئی ۔ہوئی۔ اس تباہی کی بنا پر مدینہ ماتم کدہ بن گیا ۔گیا۔ مدینہ پر قبضہ کرنے کے بعد فتح مند خارجی اب شام کی طرف بڑھے مگر وادی القریٰ میں اموی فوج کے ساتھ مقابلہ کے بعد شکست کھائی۔ اس جنگ میں خوارج کی کثیر تعداد ماری گئی جس کی وجہ سے ان میں مزید مقابلہ کی قوت باقی نہ رہی۔
 
==عباسیوں کا ظہور ==
سطر 30:
==مرو پر قبضہ ==
 
اس خوفناک صورت حال کی بنا پر والئی [[خراسان]] نصر سخت پریشان ہوا ۔ہوا۔ اس نے عرب قوم کو متحد ہونے کی دعوت دی ۔دی۔ اس درخواست کا خاطر خواہ اثر ہوا اور ربیعہ اور یمن کے قبائل نےاپنےنے اپنے دشمن کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا عزم کیا لیکن ایک عباسی داعی کے غیرت دلانے پر قبیلہ ربیع کا رہنما علی بن جدیع کرمانی نصر سے الگ ہو گیا کیونکہ نصر نے علی کے باپ جدیع کرمانی کو دھوکا سے مروا دیا تھا۔ اب ابومسلم خرسانی نے کمال ہوشیاری سے قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا اور مرو پر فوج کشی کی اور اس پر 747ء / 129ھ میں قابض ہونے کے بعد عباسی خلافت کی بنیاد رکھی۔ ابو مسلم خراسانی کی عرب دشمنی مسلم تھی چنانچہ جب اس نے محسوس کیا کہ اب اسے ربیع یمنی قبائل کی امداد کی ضرورت نہیں تو ان کے بیشتر افراد اور سرداروں کو قتل کر دیا۔
 
دوسری طرف مروان اس دوران [[خلافت عباسیہ|عباسی]] خلافت کے حقیقی باغیوں کا سراغ لگانے میں کوشاں تھا۔ اس دوران ابومسلم خراسانی کا ایک کارندہ خفیہ پیغام لے کر ابراہیم کے پاس جا رہا تھا کہ مروان کو اس کی خبر ملی ۔ملی۔ مروان نے اس قاصد کو گرفتار کر لیا۔ اسے دس ہزار کا لالچ دے کر ابراہیم کا جواب اسے واپس لا کر دینے پر رضا مند کر لیا۔
 
چنانچہ جاسوس ابراہیم کا جواب لے کر سیدھ مروان کے پاس پہنچا۔ اس خط میں ابومسلم کو ہدایات تھیں کہ وہ دشمنوں کا جلد خاتمہ کر دے اور کسی عربی بولنے والے کو زندہ نہ چھوڑے ۔چھوڑے۔ یہ قطعی ثبوت پا کر مروان نے ابراہیم کو گرفتار کر لیا اور ان سے باز پرس کی لیکن ابراہیم نے کسی بات کے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس پر مروان نے قید میں ڈال کر انہیں قتل کرا دیا۔ ابراہیم کی موت کے بعد ابومسلم خراسانی اور دیگر داعیوں نے مزید تیزی سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔
 
== کوفہ پر قبضہ ==
 
مرو پر قبضہ کے بعد [[ابومسلم خراسانی|ابو مسلم خراسانی]] کے مشہور جرنیل قحطبہ نے [[طوس]] [[سوزقان]] ، [[نیشاپور]] اور [[جرجان]] فتح کرتے ہوئے اپنی پیش قدمی جاری رکھی چناندہ رےرے، ، اصفہان ،اصفہان، نہاوند اور حلوان کے علاقے بھی ان کے قبضہ میں آ گئے۔ اب ان فتح داعیوں نے کوفہ کارخ کیا۔ قحطبہ کے ساتھ خالد برمکی بھی تھا ۔تھا۔ عباسی داعیوں اور ابن ہبیرا والئی عراق کی افواج کے درمیان زبردست معرکہ آرائی ہوئی ۔ہوئی۔ قحطبہ جنگ کے دوران قتل ہوا لیکن اس کے بیٹے حسن نے کمان سنبھال لی اور ابن ہبیرہ کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ابن ہبیرہ شکست کھا کر واسطہ پسپا ہو گیا۔
 
== معرکہ زاب اور اموی خلافت کا خاتمہ ==
سطر 46:
== وفات ==
 
اس شکست نے تاریخ اسلام کا رخ بدل دیا۔ اب قوت اقتدار امویوں کی بجائے عباسیوں کے ہاتھوں منتقل ہو گیا۔ مروان شکست کھا کر موصل میں پناہ گزین ہوا۔ عبداللہعبد اللہ بن علی اس کے تعاقب میں وہاں پہنچا ۔پہنچا۔ مروان بھاگ کر حران اور شام ہوتا ہوا مصر جا نکلا۔ عباسیوں نے شام پر قبضہ کر لیا اور صالح بن عون کو مروان کے تعاقب میں روانہ کیا۔ اب مروان کے لیے نہ جائے رفتن اور نہ پائے رفتن کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ چنانچہ زی الحجہ 132ھ کو اپنی مختصر سی جماعت کے ساتھ لڑتا ہو ابو صیر کے مقام پر مارا گیا اور اس کی وفات کے ساتھ ہی اموی اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔
 
== سیرت و کردار ==
 
مروان ثانی بنو امیہ کا آخری تاجدار تھا۔ ہمت شجاعت اور مستقل مزاجی میں کسی بھی اعلی اموی حکمران سے کم نہ تھا۔ تخت نشینی کے بعد اس نے تمام مشکلات ،مشکلات، مصائب اور پیچیدہ مسائل کا نہایت ہی خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اگر وہ سازگار حالات میں حکمران بنتا تو شاید ایک بہتر اور کامیاب حکمران ثابت ہوتا۔ اس کی جسمانی طاقت ،طاقت، قوت برداشت اور مسلسل جدجہد کی بنا پر اسے الحمار (گدھا) کا لقب دیا گیا۔ وہ ایک تجربہ کار ،کار، معمر اور لائق خلیفہ تھا ۔تھا۔ لیکن زوال و انتشار اس حد تک پھیل چکے تھے کہ بنو امیہ کو تباہی سے روکنا تنہا مروان کے بس کی بات نہ تھی۔ اس ناکامی کا سبب سابقہ خلفاءکی کوتاہیاں اور غلطیاں اور عربوں کی باہمی پھوٹ تھی۔ اگر شامی بھی اسے دغا نہ دے جاتے تو انہیں معلوم تاریخ کون سا رخ اختیار کر لیتی ۔
 
اس کی زندگی سادگی کا اعلٰی نمونہ تھی۔ عیش و آرام سے اسے نفرت تھی۔ اپنی اکثر زندگی فوجی کیمپ میں گزاری اور اپنے فوجیوں کے ساتھ ہر دکھ سکھ میں ان کا برابر کا شریک رہا۔ بہادری اور شجاعت کی اس میں کمی نہ تھی لیکن جیسا کہ ابن تاثیر کا بیان ہے کہ چونکہ تقدیر کا فیصلہ اٹل تھا سی لیے اس کی بہادری اور دانائی اس کے کام نہ آسکی۔ ان سب خوبیوں کے باوجود قبائلی عصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہا اور اسی داخلی خانہ جنگی کی بدولت بالآخر اسے بنو عباس کے مقابلہ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کا جھکاؤ مضری قبائل کی طرف تھا اس لیے یمنی قبائل کی ہمدردیاں حاسل نہ کر سکا۔ ابو مسلم خراسانی جیسے شاطر اور ذہین شخص نے عربوں کے اس باہمی انتشار سے خوب فائدہ اٹھایا ۔اٹھایا۔ اگر مروان وسعت نظر سے کام لیتا اور قبائلی عصبیت سے بالاتر رہ کر اپنی حکمت عملی اور پالیسی اختیار کرتا تو بنو عباس اتنی تیزی اور آسانی سے فتح یاب نہ ہوتے ۔
 
== امری شہزداے کا فرار ==