"مزار شریف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 91:
بلاشبہ مزارِ شریف شمالی [[افغانستان]] میں فوجی اعتبار سے کلیدی شہر مانا جاتا ہے کیونکہ یہ [[تاجکستان]] کی سرحد پر [[دریائے آمو]] کے قریب آباد ہے اور وسطی افغانستان تک فوجی رسد کے لیے واحد زمینی راستہ ہے لیکن کئی اور اعتبار سے بھی مزار شریف کو زبردست اہمیت حاصل ہے اور اس کا افغانستان کی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے۔
 
مزار شریف جو سوویت قبضہ کے دوران سویت نواز حکومت کا مضبوط گڑھ تھا شمالی افغانستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ پر رونق شہر یونیورسٹی، کھیلوں کے کلبوں ،کلبوں، فلم اسٹوڈیو اور [[ایران]] اور [[ازبکستان]] سے تجارت کے مرکز کی حیثیت سے مشہور رہا ہےـ
 
یہ شہر مزارِ شریف اس بنا پر کہلایا جاتا ہے کیونکہ یہاں ایک نہایت وسیع مزار ہے جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہاں [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] دفن ہیں۔ اس مزار کی پہلی عمارت بارہویں صدی میں ترک سلطان سنجر نے تعمیر کرائی تھی جو [[چنگیز خان]] نے تباہ کر دی تھیـ مزار کی موجودہ عمارت پندرہویں صدی میں تعمیر ہوئی۔
 
مزارِ شریف اور اس کا جڑواں شہر [[بلخ]] ، جو چند کلومیٹر مغرب میں ہے ،ہے، افغانستان کی تاریخ میں نمایاں رہے ہیںـ عام خیال ہے کہ زرتشتی مذہب کے پیشوا اور ممتاز فلسفی زرتشت یہیں ساتویں صدی قبلِ مسیح میں پیدا ہوئے تھے۔ بلخ تیرھویں صدی کے صوفی شاعر مولانا [[مولانا جلال ‌الدین محمد بلخی رومی|جلال الدین رومی]] کا آبائی شہر بھی ہے۔
 
مزارِ شریف نوروز کے جشن اور روایتی افغان کھیل بز کُشی کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ مزارِ شریف ثقافتی اور تفریحی شہر کے علاوہ ایک اہم تجارتی اور صنعتی مرکز بھی ہےـ سوویت نواز حکومت کے دور میں یہاں گیس اور تیل صاف کرنے کے کارخانے قائم ہوئے تھےـ
 
افغان جنگ کے دوران اس شہر پر باری باری کئی گروپوں کا قبضہ رہا ہے اور طالبان نے اس شہر کو شدید جنگ کے بعد میں شمالی اتحاد سے چھینا تھا۔ شہر کی آبادی کی اکثریت ازبک اور تاجک نژاد افراد کی ہے جن کے پڑوسی ملکوں سے قریبی تعلقات ہیںـ [[اہل تشیع]] کی بھی یہاں بڑی تعداد ہےـ جنرل عبدالرشیدعبد الرشید دوستم جنہوں نے مزارِ شریف پر قبضہ کا اعلان کیا ،کیا، سوویت نواز حکومت کے دور میں اس علاقہ کے بااثر کمانڈر تھے اور سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد انہوں نے اس علاقہ کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھاـ
 
سن انیس سو ستانوے میں اس شہر پر طالبان نے اُس وقت قبضہ کیا جب جنرل رشید دوستم کے ایک اہم کمانڈر اسمعیل خان طالبان سے جا ملےـ جب سے اس شہر پر طالبان کا قبضہ تھاـ