"میر خلیل الرحمٰن" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ مساوی زمرہ جات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، سے، سے، کر دیں، \1 رہا، ابتدا، وکلا، دیے، ہو گئی
سطر 21:
میر خلیل الرحمٰن نے اپنی اخباری زندگی کا آغاز ایک ہاکر سے کیا، انہوں نے جلد ہی اخباری مالکان سے تعلقات قائم کرلیے۔ اس دوران انہیں اپنا اخبار شائع کرنے کا خیال آیا۔ انہوں نے سرمائے کی عدم دسیابی کے باوجود جنگ کے نام سے 1941 میں دلی سے ایک شام کا اخبار شائع کیا۔ وہ [[دوسری جنگ عظیم|جنگ عظیم دوم]] کا زمانہ تھا۔ انہوں نے اس دوران جنگ عظیم کے علاوہ جدوجہد آزادی کو بھی خبروں میں نمایا مقام دیا۔ غالبا اخبار کا نام بھی ان ہی حالات کی مناسبت سے جنگ رکھا گیا ہوگا۔ اخبار کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ میر خلیل الرحمٰن کے بقول اخبار کی فروخت سے جو رقم ملتی تھی اسی سے دوسرے روز کے اخبار کا کاغز خریدا جاتا۔
 
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پورے خاندان سمیت [[پاکستان]] ہجرت کی اور [[کراچی]] کے [[برنس روڈ]] پر ایک چھوٹا سا کمرہ لے کر 15 اکتوبر 1947 کو[[روزنامہ جنگ]] [[خبر|اخبار]] کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ وہ دن تھے جب جنگ شام کا اخبار تھا۔ جلد ہی جنگ اخبار نے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں۔کر دیں۔
 
جنگ کے ابتدائی دنوں میں میر خلیل الرحمٰن نے اخبار کے لیے سخت محنت کی وہ خودہ پریس کانفرنس میں بھی جاتے اور دیگر امور بھی انجام دیتے۔ انہوں نے کتابت بھی سیکھ رکھی اگر کاتب کو تاخیر ہوتی وہ ہنگامی حالت میں خود ہی کتابت بھی کرلیتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں صحافت کو نئی جہت دی اور ہمیشہ نئی ٹیکنالوجی درآمد کرنے میں پہل کی۔ کمپیوٹر کی نوری نستعلیق کتابت بھی انہوں نے پاکستان کے ایک نامور کاتب اور [[برطانیہ]] کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر بنوائی تھی اور اس کتابت کا پہلا اخبار لاہور سے شائع کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداءابتدا میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ شاید قارئیں نئی کمپیوٹر کتابت کو پسند نہ کریں مگر لاہور میں اخبار کے نئے انداز بہت پسند کیا گیا اور آج یہ تقریبا ہر اخبار میں رائج ہے۔
 
صحافیوں کو دیئےدیے گئے ایک انٹرویو میں میر خلیل الرحمٰن نے آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خبر پر کہا تھا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خبر قیام پاکستان کا اعلان تھا اور میری زندگی کی سب سے بُری خبر [[جنگ آزادی بنگلہ دیش|سقوط مشرقی پاکستان]] تھا، اس خبر نے مجھ پر سکتہ طاری کر دیا اور دل ڈوبنے لگا، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ اسے بیان کرنے کے لیے نہ اس وقت میرے پاس الفاظ تھے اور نہ اب ہیں۔
 
==میر خلیل الرحمٰن نقادوں کی نظر میں==
سطر 35:
پاکستانی معاشرے کی تباہی میں جتنا کردار جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ان کی محافظ نوکر شاہی اور اقتدار پسند فوج کا رہا ہے اتنا ہی ہمارے ایک اکیلے اخبار روزنامہ جنگ کا ہے۔ میں کسی مبالغے سے کام نہیں لے رہا۔ 'جنگ‘ نے محض اپنی ذاتی مفاد کے لیے ہر اُس قدر کو پامال کیا جو ایک نوتعمیر معاشرے کی بنیاد مضبوط کر سکتی تھی۔
قربانیاں ہماری روایت نہیں:
روزنامہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کا اخبار قربانی کے فلسفے پر پورا نہیں اترتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کسی پارٹی کا نمائندہ اخبار بھی نہیں ہے جو اپنے نصب العین کے لیے نقصان اٹھانا برداشت کر لیتے ہیں۔ بھٹو دور میں جب مخالف صحافیوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی تھی تو ہڑتالیوں کی حالت زار دیکھ کر میر خلیل الرحمان نے کہا تھا، بیشک آپ مشنری لوگ ہیں۔ آپ کا اخبار کاغذ کے پرزے پر بھی بک جائے گا۔ روزنامہ جنگ پر اگر کوئی ایسی افتاد پڑے تو اس کو دوسرے دن پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ انہوںنے بارہابا رہا کہا کہ 'جنگ‘ ایک کمرشل اخبار ہے۔ اس سے آپ 'زمیندار‘ والی یا 'کامریڈ‘ والی کسی قربانی اور ایثار کی توقع نہ رکھئیے۔ ان بیانات میں کسی قسم کی شرمندگی کے بغیر جو نیم فخریہ انداز اخبار کے کمرشل ہونے پر موجود ہے اُسی نے 'جنگ‘ کو ابتداءسے پاکستان کی سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی تباہی میں 'قابل فخر‘ کردار انجام دینے کے قابل بنا دیا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل انجام اور جنگ کا موازنہ:
اخبار 'انجام‘ کو مسلم لیگ کا آرگن ہونے میں وہ اعزاز حاصل نہیں تھا جو اخبار 'منشور‘ کو حاصل تھا، مگر شہرت میں انجام منشور سے آگے تھا۔ انہیں دنوں میر خلیل الرحمان نے سید محمد تقی صاحب کی زیرادارت 'جنگ‘ کا آغاز کیا مگر قیام پاکستان تک 'جنگ‘ دہلی میں مقبول نہیں ہو سکا تھا اور نہ ہی مدیران اخبار کی نیتوں سے پردہ اٹھا تھا۔ سنسنی خیزی اور عوام کے جذبات سے کھیلنا اور اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے روزنامہ 'جنگ‘ 'انجام‘ جیسے بھاری قدیم اخبار کا وقار نہیں گرا سکا تھا۔ البتہ نیم خواندہ یا نچلے طبقوں میں وہ اس طرح اپیل کرتا تھا جس طرح کراچی میں شام کا اخبار 'نئی روشنی‘ کسی زمانے میں کیا کرتا تھا۔
سطر 53:
اُردو صحافت کا مسلم نشاۃ ثانیہ میں کردار: اُردو صحافت نے بیسویں صدی میں زندہ اور بیدار قومی شعور پیدا کیا تھا۔ سیاسی اور قومی قیادت اخبارات کرتے تھے، ہمیں آزادی کی جنگ لڑنے والی قوم 'جنگ‘ نے نہیں بنایا تھا نہ جنگ میں وہ سوز ہے اور نہ وہ جگر داری۔ کیا الہلال، البلاغ، کامریڈ، ہمدرد اور زمیندار کی خدمات بھلائی جا سکتی ہیں۔ حالی، شبلی، اکبر الہ آبادی، سجاد حسین، عبدالحلیم شرر، اقبال، حسرت موہانی، اسماعیل میرٹھی، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، علامہ مشرقی، سلیمان ندوی، ابوالاعلی مودودی اور مولانا ظفر علی خان جیسے دیانت دار اور جگر پاش شخصیات نے جو ادب تخلیق کیا تھا وہ سب عوام کی خواہشات کے برخلاف فروغ پا گیا تھا!
جہاں ملک کا ایک بازو کٹ گیا ہو اور دوسرا لہو لہو ہو، غربت کا گراف روز بروز بڑھ رہا ہو، وہاں اخبار کے مالکان لکھ پتی سے کروڑ پتی بن جائیں تو ایسی صحافت کو کیا کہیے گا! یقینا اسے ایک نئی قوم اور نئی مملکت کو اپنے کرتوتوں، ذہنیت اور بداعمالیوں کی چاٹ کی بھینٹ چڑھا کر بانسری بجانے کے عمل سے ہی موسوم کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان کے معصوم، بھولے بھالے اور ناخواندہ عوام جس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے، تحریک پاکستان کا کردار بنے تھے ان کی کردار سازی میں 'جنگ‘ کا بھی کوئی کردار ہے!؟ میر خلیل الرحمان اگر زندہ ہوتے تو اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔ مس ڈولنگر کی ننگی ٹانگوں سے لے کر پرتعیش فاحشاؤں کے چٹخارے دار داستانوں تک اور ہر قسم کی بدکرداری میں مبتلا کرکے اپنی قوم میں کسی قسم کا قومی اور سیاسی شعور بیدار نہ ہونے دینا، مغربی صحافت کا امتیاز کب رہا ہے، اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ 'جنگ‘ ایک مغربی طرز کا حامل اخبار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد تقریباً پانچ سال تک قوم اپنے نصب العین سے غافل نہیں ہوئی تھی، تحریک پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے، وہ اس انتظار میں رہے کہ کب ان سے کئےکیے گئے وعدے پورے ہوتے ہیں، سیاست دانوں سے مایوس ہو کر ایوب خان کے مارشل لاءسے ان کی امید بندھی، ناامید ہو کر آخر قوم نے حالات کے دھارے پر اپنے مقدر کی ناؤ رکھ دی۔ امید وبیم کے اِن پانچ برسوں میں 'جنگ‘ نے عوام کی خواہشات کا کتنا پاس لحاظ رکھا تھا۔ حالات سے قوم کو باخبر رکھنے میں کتنے جتن کئے،کیے، قومی اخبار تو کیا عام روزنامہ بھی اپنے آپ کو اس فریضے سے لاتعلق نہیں رکھ سکتا۔ 'جنگ‘ نے ان دنوں جو بویا تھا قوم اُسے آج کاٹ رہی ہے۔ 'جنگ‘ نے صرف سیاسی حالات اور اقتدار کی سازشوں سے ہی عوام کو بے خبر نہیں رکھا، ناپاک اور بدطینت حکمرانوں کو اقتدار کے آخری لمحوں تک خوش کرنا اور ان کی سبکدوشی یا جلاوطنی کے بعد ان کی پشت پر ایک لات لگا، اس سے بدتر حکمرانوں کی کاسہ لیسی کرنا، علاوہ اس کے رشوت دے کر نیوز پرنٹ کے حصول کے لیے جھوٹے دعوے داخل کرنا اور پھر انہیں بلیک میں فروخت کرکے نفع کمانا بھی 'جنگ‘ کو ایک صنعت بنانے کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اس مجرمانہ عمل کا آغاز سب سے پہلے 'جنگ‘ ہی نے کیا تھا۔
فلمی اداکاراؤں کو نوجوانوں کے لیے آئیڈیل بنانے کا فریضہ بھی سب سے پہلے 'جنگ‘ نے انجام دیا ہے۔ جنگ سے پہلے اُردو صحافت میں اس کی نظیر نہیں ڈھونڈی جا سکتی۔ اخبارات کو اس بُرائی میں مبتلا کرنے کا اعزاز 'جنگ‘ کو حاصل ہے۔ کم از کم 1960ءتک پنجاب کی صحافت اس گندگی سے پاک تھی جس کے تراکم سے کراچی میں سرانڈ پیدا ہو گئی تھی۔
میر خلیل الرحمان ابتداءمیں کئی سال تک مجالس یا قومی فورموں کو اپنی سرپرستی سے رونق افروز نہیں کرتے تھے۔ جب جھجک جاتی رہی تو کہا کرتے تھے، صاحب وہ زمانہ اور ہی تھا جب اخبار واقعتا جہاد کرتے تھے۔
سطر 66:
ہندوستان اور پاکستان کے ابتدائی زمانے میں لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے سیاسی تناظر، کشمیر کے مسئلے، نئی سرحدوں اور دریاؤں کی تقسیم کے نہایت اہم معاملات کے ساتھ بین الاقومی سطح پر ایک خاص انداز کی گروہ بندیوں میں 'جنگ‘ نے تمام اخبارات کے مقابلے پر سب سے زیادہ سیاسی استحصال کیا اور اپنے عوام میں کبھی وہ شعور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جو ایک حقیقی صحافت کا فرض ہوتا ہے۔ چڑھتے سورج کے ساتھ موضوعات بدل دینا 'جنگ‘ کی صحافت کا بڑا وصف تھا۔ بحران کی صورت میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی بجائے اپنی اشاعت کو بڑھانا اور حقائق سے پردہ نہ اٹھانا 'جنگ‘ کی پالیسی تھی، اس کے نتیجے میں غلام محمد جیسے افراد اقتدار میں آئے، فوج کو مداخلت کا موقع فراہم ہوا اور بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ ملک کی تباہی میں 'جنگ‘ کی ترقی کا سامان وافر تھا، 'جنگ‘ کے اثاثے لاکھوں سے کروڑوں میں ہو گئے تھے۔ اخبار انجام کو شکست دینے کے لیے سنسنی خیز مواد، جنسی اور جرائم پر مبنی کہانیاں اور عورت کا جسم اخبار کی مستقل خصوصیت بنا رہا۔ نظریاتی اور دینی پس منظرکا احساس وہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا۔ مس جین کی کہانی لوگوں کو اب بھی یاد ہوگی۔ یہ بے ہودگی اس سے پہلے کسی اخبار کی زینت نہیں بنی تھی۔ 'جنسی عمل کا دورانیہ‘ شہ سرخی کے ساتھ دینا، فلمی دُنیا کے اسکینڈل، لوگوں کے لیے موضوع سخن 'جنگ‘ کو اس میں یدطولی حاصل تھا
 
عدلیہ کی بحالی کی تحریک اور پاکستان کے عدالتی وآئینی بحران جو 2007 میں پاکستانی کے آمر حکمران [[پرویز مشرف]] کے دور میں شروع ہوا تھا، [[جنگ گروپ]] اور اس کے ذیلی ادارے [[جیو ٹی وی]] نے بے شمار قربانیاں دیں۔ [[جیو ٹی وی|جیوٹی وی]] کو 2009-2007 کے دوران متعدد بار پرویز مشرف اور بعد ازاں نئے صدر [[آصف زرداری]] کی جانب سے علانیہ و غیر علانیہ بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ادارے کو اروبوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس کشمکشمش کے دوران براہ راست دکھائے جانے والے ایک کرکٹ کا معاہدہ بھی منسوخ کیا گیا جو جیو ٹی اور جنگ گروپ کے لیے بہت بڑے مالی خسارے کا باعث تھا۔ علاوہ ازیں سابق صدر اور آمر حکمران [[پرویز مشرف]] نے عرب امارات کے حکام پر دبائو ڈال کر جیو ٹی وی کی نشریات کو دبئی سے بھی (جہاں جیو ٹی وی کا ہیڈ آفس تھا) بند کروادیا اس کے نتیجے میں جیو کے دنیا بھر کے ٹی وی چینلز سے معمول کی نشریات بند ہوگئیِں۔ہو گئیِں۔ کہاجتا ہے کہ وکلاءوکلا تحریک میں سب سے اہم کردار مڈیا نے ادا کیا جن میں دیگر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے علاوہ جنگ گروپ کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
 
[[زمرہ:فضلا جامعہ پنجاب]]