"نجاشی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ مساوی زمرہ جات
م خودکار: خودکار درستی املا ← ہو گئے، \1وں گا، کر دے، سے، سے، بالمُشافہ، ہو گئی
سطر 110:
== مسلمانوں کی پہلی ہجرت گاہ ==
{{اصل مضمون|ہجرت حبشہ}}
قریش کے ظلم وستم کم نا ہوئے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوحبشہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا؛ چنانچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد [[مکہ]] سے حبشہ ہجرت کرگئی، حبشہ میں اس وقت یہی اصمحۃ النجاشی بادشاہ تھے، نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا، قریش کو اس احسان وسلوک کا حال معلوم ہوا توبڑا پیچ وتاب کھایا، آخر میں طے کیا کہ شاہ نجاشی کے ایک وفد جائے اور یہ عرضداشت پیش کرے کہ ہمارے مجرموں (مسلمانوں) کوہمارے حوالے کردے،کر دے، اس مہم کے لیے [[عمرو ابن عاص|عمروبن العاص]] اور عبداللہ بن ربیعہ منتخب ہوئے یہ لوگ حبشہ پہنچے توپہلے تمام [[پادری|پادریوں]] سے ملے اور تحفے وتحائف پیش کیے اور مقصد کی تکمیل کے لیے ان کوہموار کر لیا؛ پھرشاہ نجاشی اصمحہ کے دربار میں بازیابی حاصل کی اور نذرانہ پیش کیا، نجاشی نے آمد کی وجہ دریافت کی؛ انھوں نے اپنا مطالبہ ظاہر کیا، نجاشی نے پادریوں سے دریافت کیا؛ انہوں نے بھی یک زبان ہوکر ان کے مطالبہ کی تائید کی؛ لیکن شاہ نجاشی نے کہا: میں ان لوگوں سے خود بالمشافہہبالمُشافہ گفتگو کرونگا؛کروں گا؛ اگروہ لوگ جیسا کہ تم کہتے ہو مجرم ثابت ہوئے توان کوواپس کردونگا؛کردوں گا؛ ورنہ جومیری پناہ میں آگیا ہے اس پرظلم روا نہیں رکھا جاسکتا، مسلمان دربار میں بلائے گئے تواصمحہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے کونسا دین اختیار کیا ہے، جو نہ نصرانیت ہے نہ بت پرستی اور نہ کسی دوسری قوم کا دین ہے، مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر نے وکالت کی اوربرسرِدربار ایک بہت ہی مؤثر اور دلنشین تقریر کی، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور اسلام کی اخلاقی خوبیاں بیان کیں، اس کے بعد شاہ نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے قرآن کا کچھ حصہ پڑھنے کی فرمائش کی؛ انھوں نے سورۂ مریم کی چند ابتدائی آیتیں تلاوت کیں، نجاشی پررقت طاری ہوگئیہو گئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،ہو گئے، اس کے بعد انہوں نے ان فدائیانِ اسلام کوقریش کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا اور مسلمان زبانِ حال سے یہ شعر پڑھتے ہوئے دربار سے نکل آئے
جب قریش کے وفد کوپہلے روز ناکامیابی ہوئی توانھوں نے دوسرے روز پھرکسی طرح دربار میں رسائی حاصل کی اور شاہ نجاشی کے سامنے عرض داشت پیش کی کہ اُن مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق دریافت فرمایا جائے، مسلمان پھربلائے گئے، ان کے لیے یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا؛اگرسچ کہتے ہیں توشاہ نجاشی ناخوش ہوتا ہے اور اس کے خلاف کہتے ہیں تودین کے وقار کوصدمہ پہنچتا ہے، آخر کار انہوں نے یہ طے کیا کہ چاہے جوکچھ بھی ہو انھیں سچ ہی بولنا چاہیے، اس روز بھی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ہی گفتگو کے لیے منتخب ہوئے؛ انہوں نے فرمایا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اس کے کلمہ اور اس کی روح ہیں، نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اُٹھایا اور کہا
:خدا کی قسم! [[حضرت عیسیٰ علیہ السلام]] اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں، دربار کے بطریق اور پادری اس پربہت ناراض ہوئے؛ لیکن ناراضی کا ان پرکوئی اثر نہ ہوا، قریش نے جوتحفے تحائف نجاشی کے حضور میں پیش کیے تھے، نجاشی نے سب واپس کردیے اور وفد وہاں سے نامراد مکہ واپس چلا آیا۔