"نماز اشراق" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←top: درستی |
م خودکار: خودکار درستی املا ← اس ک\1، \1وں گا، سے، \1ؤں گا، سے، اور |
||
سطر 1:
'''نماز اشراق''' یا چاشت سنت مؤکدہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ نماز پڑھنا ثابت ہے، جیسے کہ مسلم: (1176) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاشت کی نماز چار رکعت پڑھا کرتے
بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دلاتے، جیسے کہ درج ذیل احادیث میں اس کا بیان ہوگا۔
سطر 5:
شیخ ابن باز "مجموع الفتاوى" (11/389) میں کہتے ہیں کہ:
"چاشت کی نماز سنت مؤکدہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہ نماز پڑھی
دوم:
سطر 11:
نمازِ اشراق کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متعدد احادیث وارد ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- ابو ذر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہے، چنانچہ "سبحان اللہ" کہنا صدقہ ہے، "الحمد للہ" کہنا صدقہ ہے، "لا الہ الا اللہ" کہنا صدقہ ہے، "اللہ اکبر" کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ
نووی کہتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان: (وَيَجْزِي مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعهُمَا مِنْ الضُّحَى)[یعنی: اور اس صدقے سے اشراق کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں] میں " وَيَجْزِي " کو پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ [پہلی]"یا" پر پیش پڑھی جائے تو
2- بخاری: (1178) اور مسلم: (720) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں انہیں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا: ہر ماہ تین دن کے روزے، اشراق کی
3- ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "مجھے میرے دوست صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں جب تک زندہ
قرطبی کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابو
"المفهم لما أشكل من تلخيص مسلم"
3- ابو درداء اور ابو ذر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (ابن آدم! میرے لیے دن کے ابتدائی حصہ میں چار رکعات پڑھو، آخری حصہ میں میں تمہیں کافی ہو
مبارکپوری کہتے ہیں:
"حدیث میں مذکور " دن کے ابتدائی حصہ " سے مراد ایک قول کے مطابق نماز اشراق
مبارکپوری کہتے ہیں :میرے مطابق امام ترمذی اور ابو داود رحمہما اللہ نے ان چار رکعتوں سے مراد نماز اشراق ہی لی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو نماز اشراق کے باب میں ذکر کیا ہے۔
حدیث کے الفاظ: " میں تمہیں کافی ہو
اسی طرح : " آخری حصہ میں " یعنی دن کے آخری حصہ میں۔
طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "
یعنی مطلب یہ ہے کہ میری عبادت کے لیے دن کے ابتدائی حصہ میں تم وقت نکالو، میں دن کے آخری لمحے میں تمہاری حاجت روائی کر کے ذہنی اطمینان دونگا"انتہی
سطر 45:
"تحفۃ الأحوذی" (2/478)
4- ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: (نمازِ اشراق کی صرف اوّاب[رجوع کرنے والا، توبہ کرنے والا] ہی پابندی کرتا
5- انس بن مالک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جس شخص نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی، پھر سورج طلوع ہونے تک ذکر الہی میں مشغول رہا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو یہ اس کے لیے مکمل ، مکمل، مکمل حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہونگی) ترمذی: (586) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح سنن ترمذی " میں حسن کہا ہے ۔
|