"چاند کور" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
م خودکار: خودکار درستی املا ← وزیر اعظم، ہو گئے، کیے، سے، سے، سر انجام، امرا، دیے، ہو گئی، رفقا
سطر 19:
فروری 1812ء میں دس سال کی عمر میں اس کی شادی کنور [[کھڑک سنگھ]] سے ہوئی۔ 23 فروری 1821ء میں اس کے ہاں [[نو نہال سنگھ]] کی ولادت ہوئی۔تاریخی حوالہ جات کے مطابق 5 نومبر 1840ء کو مہاراجہ کھڑک سنگھ کا انتقال ہوا۔ اہالیان لاہور کو مہاراجہ کی موت کی خبر توپوں کے گولے داغ کر دی گئی۔ رسوم و رواج کے مطابق اس کے بیٹے مہاراجہ نونہال سنگھ نے اس کی لاش کو چتا کو آگ لگائی۔ مہاراجہ کی دو بیواؤں(کھیم کور، ایشا رکور) اور سات کنیزوں نے [[ستی (رسم)|ستی]] ہونے کا فیصلہ کیا ان خواتین کو چتا میں بٹھا کر کہا گیا کہ وہ مہاراجہ نونہال سنگھ کے لیے دعا کریں مگر انہوں نے کسی قسم کی کوئی دعا نہ کی۔
 
مشہور سکھ مصنف ہربنس سنگھ نے اپنی کتاب Death of Prince Nau Nihal Singh میں تحریر کیا ہے کہ ابھی کھڑک سنگھ کی لاش کو جلے ہوئے تھوڑا سا وقت ہوا تو مہاراجہ نونہال سنگھ نے امراءامرا کے ہمراہ قلعہ کی واپسی کا قصد کیا کیونکہ وہ چتا کی سخت گرمی کو برداشت نہیں کر پا رہا تھا اس نے دریائے راوی کے کنارے بنائے گئے تالاب میں غسل کیا اور قلعہ کی جانب چل پڑا۔ وہ اپنے دوستوں اور رفقاءرفقا کے ہمراہ چل رہاتھا کہ روشنائی دروازہ کی پرانی اور بوسیدہ عمارت اس پر آن گری جس کے نیچے دب کر نونہال سنگھ اور ادہم سنگھ (گلاب سنگھ کا بیٹا) دونوں زخمی ہوگئے۔ادہمہو گئے۔ادہم سنگھ موقع پر ہلاک ہو گیا مگر نونہال سنگھ زندہ تھا وہ نیم بے ہوش تھا وزیر اعظم دھیان سنگھ نے پالکی کے ذریعے مہاراجہ کو قلعہ منتقل کیا حکیموں اور ویدوں نے اس کا سرتوڑ علاج کیا مگر اہالیان لاہور نے تیسرے دن مہاراجہ کی موت کی خبر سنی۔
 
اس واقعہ کو مؤرخین نے اتفاقی حادثہ کا نام دیا مگر Encyclopedia of Sikhism, Vol. III, p. 212 کے مطابق یہ ایک سازش تھی جسے وزیر اعظم دھیان سنگھ نے تشکیل دیا تھا مگر بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم دھیان سنگھ کو اس کٹھ پتلی مہاراجہ سے کسی قسم کی کوئی شکائت نہ تھی تمام اختیارات وزیر اعظم دھیان سنگھ کے پاس تھے۔ تاہم یورپی مصنفین کانن گہم (Cunningham)،(گارڈنر Gardner) سمتھ، (سٹین بیک Steinback) بھی اس نقطہ کی حمایت کرتے ہیں کہ یہ ایک سازش تھی جس کا خالق وزیر اعظم دھیان سنگھ تھا۔
 
نونہال سنگھ کی موت کے بعد اس کی ماں چاند کور نے ”ملکہ مقدس“ کے لقب سے تخت لاہور سنبھالا اس نے دعویٰ کیا کہ آنجہانی مہاراجہ نونہال سنگھ کی بیوہ صاحب کور کے بطن سے ہونے والے بچے کی نگران کے طور پر سربراہی کے فرائض سرانجامسر انجام دے گی۔ اس دور میں سندھیانوالہ سرداروں اجیت سنگھ اور اوتار سنگھ کو عروج حاصل ہوا۔ ان کی ترقی سے دھیان سنگھ ڈوگرہ کو اپنی وزارت عظمیٰ خطرے میں دکھائی دی۔ اس لیے اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ 13جنوری 1840ء کو شیر سنگھ اپنی 26 ہزار پیدل 8 ہزار سوار فوج اور 45 توپوں کے ہمراہ لاہور پہنچ گیا اس نے قلعہ لاہور کا محاصرہ کر لیا۔
 
مہارانی چاند کور کی حمایت سندھیانوالہ سردار اور دھیان سنگھ کا بھائی گلاب سنگھ (حاکم جموں وکشمیر) کر رہے تھے۔ چاند کور کے 5 ہزار فوجی شیر سنگھ سے جا ملے۔ فریقین کے درمیان یہ جنگ تقریباَ چار دن جاری رہی لاتعداد سپاہی اور معصوم و نہتے شہری قتل و غارت کا نشانہ بنے۔توپوں کے گولوں سے قلعہ لاہور کو نقصان پہنچا۔لاہور کے بازاروں اور دکانوں کو لوٹ لیا گیا کئی دکانیں اور مکانات جلا دیئےدیے گئے شہریوں کو لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا لاتعداد افراد زندہ جلا دیئےدیے گئے۔
 
چار دنوں کی قتل وغارت کے بعد 17 جنوری 1840ء کو وزیر اعظم دھیان سنگھ منظر عام پر آیا اس نے جنگ بندی کا حکم نامہ جاری کیا اور فریقین کو بات چیت پر رضامند کر لیا۔ دھیان سنگھ کی مداخلت سے ایک معاہدہ طے پایا جس کے نقاط درج ذیل ہیں :
سطر 33:
(2) مہارانی چاند کور قلعہ لاہور چھوڑ دے گی اور اپنے بیٹے نونہال سنگھ کی حویلی میں مقیم ہوں گی۔
 
(3) چاند کور کے اخراجات کے لیے کشمیر کا صوبہ مخصوص کیاجاتا ہے جس کی سالانہ آمدن 9 لاکھ روپیہ ہوگی۔ اس کا نگران وزیراعظموزیر اعظم دھیان سنگھ کا بھائی گلاب سنگھ ہوگا۔
 
(4) چاند کور کو چادر دلنا کی رسم (سکھوں میں بیوہ کی دوبارہ شادی) پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
سطر 39:
== نتیجہ جنگ ==
 
اس جنگ کا نتیجہ سکھوں کی تباہی کے سوا کچھ نہ تھا کیونکہ دونوں طرف سے سکھ فوجی مارے گئے، گلاب سنگھ جو مہارانی چاند کور کا ہم نوا تھا شکست کے بعد یہ کہہ کر بری الذمہ ہو گیا کہ میں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بہو کی حفاظت کے لیے لڑائی کی تھی۔ ڈوگروں نے جی بھر کے قلعہ لاہور کو لوٹا۔ انہوں نے قیمتی سامان کے چھکڑے بھر کر جموں روانہ کئے۔کیے۔ شاہی اصطبل سے قیمتی گھوڑے نکال کر ڈوگروں نے اپنے استعمال میں لے لیے۔
 
اس قتل و غارت سے نہ تو چاند کور کو کچھ ملا نہ شیر سنگھ کو۔ کیوں کہ بقول مؤرخ قیمتی سامان ڈوگرے لے گئے شیر سنگھ کو کیا ملا۔ جلا، کٹا، پھٹا اور اجڑ اہوا لاہور۔
سطر 45:
== قتل ==
 
حکومت سے بے دخلی کے بعد چاند کور اندرون لاہور نونہال سنگھ کی حویلی میں منتقل ہوگئی۔اسےہو گئی۔اسے اپنے خاوند اور بیٹے کی موت کا بہت دکھ تھا۔ جولائی 1841ء کو نونہال سنگھ کی بیوہ صاحب کور نے ایک مردہ بیٹے کو جنم دیا جس کی وجہ سے مہارانی چاند کور کو سخت صدمہ ہوا۔ اس نے اپنی تمام تر بدقسمتی کا ذمہ دار دھیان سنگھ کو قرار دیا جس کی وجہ سے دھیان سنگھ مہارانی چاند کور کا دشمن بن گیا۔
 
== حوالہ جات ==