"کارل گوٹلیب فینڈر" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی |
م خودکار: خودکار درستی املا ← کے ارکان، اس ک\1، بے امنی، ہو گئے، کر دے، علما، \1 رہا، سے، غیر، سے، دار الخلافہ، ہو گئی |
||
سطر 6:
== مشنری زندگی ==
فینڈر زبانیں کئی زبان سیکھ چکا تھا۔ پس باسل مشنری انسٹی ٹیوٹ کی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اُس کو ایشیائی زبانوں میں بائبل کا ترجمہ کرنے کے لیے بھیجا جائے۔ لہٰذا 1825ء میں وہ دو اور مشنریوں کے ساتھ [[آرمینیا]] کے ملک کے ایک قصبہ [[شوشا]] میں بھیجا گیا جو [[بحیرہ اسود]] اور [[بحیرہ قزوین]] کے درمیان میں ہے۔ شوشا کا مشن [[مسلمان|اہلِ اسلام]] کے لیے تھا۔ فینڈر اس وقت صرف بائیس سال کا تھا۔ وہ تین زبانیں یعنی ترکی، تاتاری، آرمینی اور فارسی بول سکتا تھا۔ وہ اہلِ اسلام کے درمیان میں مسیحیت کی منادی کرتا تھا۔ منادی کے دوران میں اُس کو احساس ہوا کہ مشرقی ممالک میں وہ اُس طریقہ سے منادی نہیں کر سکتا جس طرح یورپ کے پادری مغربی ممالک میں کرتے ہیں۔ اہلِ اسلام کے پاس ایک مقدس کتاب قرآن تھی جس کو وہ آسمانی کتاب سمجھتے تھے اور وہ مسیحی کتب مقدسہ کو ترمیم شدہ تصور کرتے تھے۔ پس فینڈر نے قرآن وحدیث کا مطالعہ شروع کیا اور اسلامی فلسفہ اور دینیات سے واقفیت حاصل کرنے لگا۔ اس مطالعہ نے اُس پر روزِ روشن کی طرح ظاہر کر دیا کہ اُن کو کروڑہا مسلمانوں کو جو اللہ، قرآن اور رسول محمد {{درود}} پر ایمان رکھتے ہیں ان کو اسلام سے مسیحیت میں لانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اسلام نے مسیحیت کا ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک مقابلہ کیا ہے۔ اور مشرقی کلیسیا کے لاکھوں مسیحی مسلمانوں تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرچکے تھے اور اسی کی وجہ سے شوشا کے متعدد مسیحی خاندان جن کا تعلق آرمینیا کی کلیسیا سے تھا مسلمان
انہی دنوں میں اس نے ”میزان الحق“ پہلے پہل [[جرمن زبان]] میں لکھی تھی جو اُس کی حین حیات میں تیس ہزار سے زیادہ چھپ گئی۔ اور اس کا ترجمہ پہلے فارسی میں اور پھر انگریزی، اردو، مرہٹی، ترکی اور عربی زبان میں ہو گیا۔ اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی ممالک میں چند سال کام کرنے کے بعد اُس نے دیکھا کہ زبانی تقریروں اور مباحثوں کا بہت اثر نہیں ہوتا کیونکہ مسلمان مسیحی عقائد کی تائید میں قرآن اور اسلامی عقائد کے خلاف گفتگو سننے کے خواہش مند نہیں تھے۔ پس اس نے ایک ایسی کتاب لکھی جو اِن ضروریات کو پورا کرے۔ اور جس میں مسیحی عقائد کی تائید اور اسلامی عقائد کی مفصل تردید تھی۔ لیکن اُس وقت کوئی ایسی کتاب مشنریوں کے پاس موجود نہیں تھی۔ فینڈر خود ہنوز نوجوان تھا لہٰذا اُس نے اپنے ہم خدمتوں کو اس کمی کی طرف متوجہ کیا۔ لیکن چونکہ وہ ایسی کتاب لکھنے کے اہل نہ تھے فینڈر نے اپنے خیالات کو یکجا لکھنا شروع کر دیا اور یوں ہوتے ہوتے 1829ء میں میزان الحق تیار
1892ء میں وہ ایک مشنری کے ساتھ [[بغداد]] گیا کیونکہ اُس کو عربی سیکھنے کا شوق تھا اس زمانہ میں بغداد میں انجیل کی اشاعت کی مخالف تھی اور انجیل کے جانفزا پیغام سنانے کی سزا موت تھی۔ لیکن اُس نے کہا "مجھے اپنی جان کی پروا نہیں ہے۔ اگرخدا کو اس کی ضرورت ہے تووہ اُس کو خود محفوظ رکھے گا"۔ بغداد میں وہ عربی سیکھتا رہا۔ اس وقت تک میزان الحق ارمنی، ترکی، تاتاری اور فارسی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی تھی۔
سطر 18:
1833ء میں وہ تہران سے ہوتا ہوا واپس شوشا کی طرف چلا گیا۔ وہاں جا کر اُس نے باسل کی کمیٹی کو ابھارا تاکہ اس کے شرکا مسیحیت کی تبلیغ اہلِ اسلام میں کرنے کے لیے مبلغین کو ایران بھیجیں۔ شوشا سے وہ شمکی اور بالو میں گیا جہاں سے وہ تبریز کو چلا گیا۔ اس جگہ اُس نے میزان الحق کی نظر ثانی کی۔ اس کام میں اُس نے ایک آزاد خیال ایرانی منشی اور ایک کٹر مُلا کی مدد لی۔ جس موخر الذکر نے اُس کے پاس آنے سے انکار کیا تو فینڈر اپنے مسودہ کو اُس کے پاس بھیجتا تھا۔ جب کام ختم ہو گیا تو ایرانی منشی نے کہا "جناب آپ کسی کو نہ بتائیں کہ میں نے اس کتاب کی تصنیف میں آپ کی مدد کی ہے لیکن یہ کتاب آزاد خیال ایرانیوں میں بہت مقبول ہوگی"۔ ملا نے کہلا بھیجا کہ "ہمیں افسوس ہے کہ یہ کتاب قرآن کے خلاف ہے۔ اور اگر ہمیں اس کے ناپاک مضامین کی پہلے اطلاع ہوتی توہم مدد کرنے کا کبھی وعدہ نہ کرتے" تبریز کے مسلمانوں میں فینڈر نے مسیحی کُتبِ مقدسہ تقسیم کیں اور ان کتابوں کی دو کشتیاں بھرکر نسطوری صدر اُسقف کو بھی روانہ کیں۔
1833ء میں وہ واپس جرمنی میں اپنے گھر گیا۔ اس سال اُس کی شادی صوفیا ریوس (Sophia Reuss) سے
فینڈر اور اس کا دوست مبلغ کرائیس 1837ء میں ہندوستان گئے۔ وہ ایران اور خلیج فارس سے ہوتے ہوئے تیرہ ماہ کے بعد کلکتہ پہنچے۔ وہاں چرچ مشنری سوسائٹی کے مشنری وائی براؤ (Wybrow) اور بردوان کے "رسولوں کا ساول رکھنے والے" مشنری وائٹ بریخٹ (Weit Brecht) نے (جو فینڈر کا رشتہ دار تھا) اُن کا خیرمقدم کیا۔
سطر 27:
فینڈر برسرِ بازار لوگوں میں مسیحیت کی منادی کیا کرتا تھا۔ اور روزانہ آگرہ اور اُس کے گردونواح میں جاکر کتب مقدسہ کو تقسیم کرتا تھا۔ اہل ہنود کو وہ خدائے واحد پر ایمان لانے کی اور اہل اسلام کو [[یسوع مسیح|ابن اللہ]] پر ایمان لانے کی دعوت دیتا تھا۔ اُسکی کتاب میزان الحق مولوی صاحبان کے پاس موجود تھی اور مولوی صاحبان کے اور فینڈر کے درمیان میں بحث کا سلسلہ جاری رہا۔
1845ء میں آگرہ کے ایک سرکاری افسر نے میزان الحق کے جواب میں کتابِ استفسار لکھی۔ لکھنؤ کے مولوی محمد ہادی نے فینڈر کی کتاب مفتاح الااسرار کے جواب میں کشف الاستار لکھی جس کا جواب الجواب فینڈر میں حل الاشکال میں دیا۔ فینڈر اپنے یورپین احباب سے درخواست کی کہ وہ اُس کو کتب الٰہیات بھیجا کریں تاکہ وہ مسلمان
فینڈر نے منادی کے لیے شہر کے گنجان حصہ میں دو دکانیں کرایہ پر لے لیں۔ وہ لکھتا ہے "لوگ مجھ پر ہنستے تھے اور میرا مضحکہ اڑاتے تھے لیکن جس جگہ وہ ایسا کرتے میں وہاں اگلے دن ضرور پہنچتا۔ جب اُنہوں نے یہ دیکھا کہ میں ٹلنے والا شخص نہیں ہوں تواُنہوں نے ہنسی مذاق کرنا بند کر دیا۔ اب میں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام کرتا ہوں۔"
1845ء میں وہ دریائے جمنا کی راہ دہلی پہنچا۔ یہاں کے لوگوں کے پاس بھی میزان الحق تھی اور اُس نے
پشاور کے میجر مارٹن نے فینڈر کو لکھا کہ یہاں ایک ایرانی ہے جو بپتسمہ پانا چاہتا ہے۔یہ ایرانی تہران کے ایک تاجر کا بیٹا تھا۔ ایک آرمینی نے اُس کو ایران میں میزان الحق دی تھی۔ یہ ایرانی نوجوان مذہبی کتب پڑھنے کا شوقین تھا۔ اُس نے پشاور میں کرنیل ویلیہ (Col. Whelle) کو بازاری منادی کرتے سنا تھا۔ وہ میزان الحق پڑھ کر دوسال تک مسیحیت و اسلام کے عقائد کا موازانہ کرتا رہا اور بلاآخر مسیحی ہو گیا۔
ایسٹر 1857ء میں آگرہ میں فینڈر کا معرکتہ آلار مباحثہ علمائے اسلام کے ساتھ ہوا۔ فرنچ اس کا مددگار تھا۔ فینڈر اس مباحثہ کی بابت لکھتا ہے:
"یہاں کے (آگرہ) کے علمائے اسلام دہلی کےعلماء کے ساتھ مل کر گذشتہ دوتین سال سے کتابِ مقدس کا اورہماری کتابوں کا اور مغربی
"جنوری 1854ء میں جب میں یہاں نہیں تھا تو مولوی رحمت اللہ آگرہ آیا تاکہ اپنے احباب کے ساتھ اُن کتب کو چھپوانے کا انتظام کرے اس اثناء میں وہ مذہبی گفتگو کے لیے فرنچ کے پاس چند دفعہ آیا اور مجھے نہ پاکر افسوس ظاہر کیا۔ جب میں آیا تو اُس نے اپنے ایک دوست کی معرفت مباحثہ کے لیے کہلوا بھیجا اگرچہ میں جانتا تھا کہ مباحثوں کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا پھر بھی میں نے مباحثہ کا چلینج منظور کر لیا مباحثہ کی شرائط طے پائیں کہ مولوی رحمت اللہ اہل اسلام کی طرف سے ڈاکٹر وزیر خان کی مدد کے ساتھ مباحثہ کرے اور مسیحیوں کی طرف سے میں مسٹر فرنچ کی طرف سے مباحثہ کروں۔ مضمون زیربحث یہ قرار پائے (1)مسیحی کتُب مقدسہ میں تحریف واقع ہوئی ہے اور وہ منسوخ ہوچکی ہیں(2) الوہیتِ مسیح اوتثلیث (3) رسالتِ محمدی:"
"بحث دودن تک رہی۔ پہلے روز تقریباً ایک سو مسلمان
فینڈر کا یہ مباحثہ کامیاب رہا تھا۔ اس کی ایک تصنیف کے مطابق اُن
فینڈر کے مباحثہ نے شمالی ہند کے کونے کونے میں ہلچل مچادی۔ اُس کی کتاب میزان الحق کو پڑھ کر اُن لوگوں کے دل جو تحقیق حق میں سرگرداں تھے اسلامی تعلیم سے بدظن
فرنچ فینڈر کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے "گو مرحوم ڈاکٹر فینڈر بزرگ ہنری مارٹن کا سا دماغ اور لیاقت نہیں رکھتے تھے تاہم میدان مباحثہ میں یکتا تھے وہ اپنے ہمعصر مشنریوں میں جو اہل اسلام میں کام کرتے تھے اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے مرحوم خود وفات پایا گیاہے۔ لیکن اُس کا کام زندہ ہے اور کلیسیا کے لیے ایک
آگرہ کی کلیسیا میں 1848ء میں فینڈر نے ایک پنچایت قائم کی یہ شمالی ہند میں موجودہ زمانہ کی طرز کی پہلی پنچائت تھی۔ فینڈر لکھتا ہے کہ "کلیسیا کے قیام کے لیے اور اپنی مدد کے لیے میں نے ایک پنچائت قائم کی ہے۔ پنچائت کے شرکاء کوک لیسیا منتخب کرتی ہے۔ پنچائت کے
1854ء میں فینڈر اپنی بیوی کو جو انگلستان سے واپس آگئی تھی لانے کے لیے کلکتہ گیا۔ وہاں کلکتہ کے بشپ نے اس کا تقرر دوبارہ کر دیا کیونکہ اس سے پہلے اُس کا تقرر لوتھرن طریقہ پرہوا تھا۔ اوروہ واپس آگرہ آ گیا۔
جب چرچ مشنری سوسائٹی نے یہ فیصلہ کیاکہ پشاور میں مشن قائم کیا جائے تو اُنہوں نے 1854ء میں فینڈر کو اورپادری رابرٹ کلارک (Robert Clark) کو وہاں بھیجا۔ ڈاکٹر فینڈر پشاور میں برسرِ بازار مسیحی کتب مقدسہ کی تعلیم دیتا اور مسیح مصلوب کی منادی کرتا تھا۔ ڈاکٹر فینڈر ہندوستانی واعظین کے ساتھ ہر شام کو بازاروں میں اور شارع عام پر اپنے مسیحیت کی منادی کرتا تھا۔ پشاور میں وہ تعلیم یافتہ اشخاص کے ساتھ اُردو اور فارسی میں کلام کرتا۔ افغانوں کے ساتھ پشتو میں اور مولوی صاحبان کے ساتھ عربی زبان میں گفتگو کرتا تھا۔ اُس کے علم ولیاقت کو دیکھ کر کسی مولوی کو مباحثہ کرنے کی جرات نہیں پڑتی تھی۔ فینڈر نے پشاور کے تمام
"قسیس ڈاکٹر فینڈر صاحب۔ آپ کی مرسلہ کتابیں بغیر پڑھیں واپس
پشاور میں ڈاکٹر فینڈر نے ایک اورکتاب تصنیف کی جس میں آگرہ اوردہلی کے علمائے اسلام کے اعتراضات کے مفصل جوابات تھے۔ مئی 1857ء کے
سر ہربرٹ ایڈورڈز نے ڈاکٹر فینڈر کی نسبت کہا "کون شخص ہے جس نے فینڈر کے پُرمحبت چہرہ کوایک دفعہ دیکھا ہو اوراُس کو دیکھ کر متاثر نہ ہوا ہو؟ خدا نے اُس کو مشنری ہونے کے لیے خاص لیاقت عطا فرمائی تھی۔ اُس کا دماغ بڑا زبردست تھا اورساتھ ہی وہ شیر دل واقع ہوا تھا۔ وہ ایک زندہ دل ،جفاکش اورمحنتی انسان تھا۔ اُس کو ایشیائی ممالک کے لوگوں کا تجربہ حاصل تھا۔ اورہندوستان بھر میں علمائے اسلام کے ساتھ مباحثہ کرنے میں وہ لاثانی تھا۔ وہ مسیحیت اورمسیحی عقائد کو ایشیائی نکتہ خیال سے لوگوں کے سامنے پیش کرتا تھا۔ اُس کی کتابوں میں یورپین
جب ایامِ فساد ختم
1858ء میں چرچ مشنری سوسائٹی نے ڈاکٹر فینڈر کو قسطنطنیہ بھیجا۔ وہاں کے لوگوں نے اُس کی کتاب میزان الحق کے فارسی ترجمہ کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ جب وہاں پہنچا تو اُس کو معلوم ہواکہ اُس کی کتاب کا جواب تیار ہو رہا ہے۔ قسطنطنیہ میں کُتبِ مقدسہ اور دیگر مذہبی کتابیں اُس جگہ فروخت کی جاتی تھیں جہاں [[یوحنا کریسوستوم|مقدس کرسسٹم]] نے کلیسیا کی ابتدائی صدیوں میں وعظ منادی کی تھی۔ اور جو اب مسجد بنادی گئی تھی۔ ایک روز ایک لخت بغیر کسی اطلاع کے سلطانِ ترکی کے حکم سے ترکی مسیحی قید کردیے گئے۔ مسیحی کتب مقدسہ ضبط کی گئیں اور مسیحیوں کی عبادت گاہوں اوردُکانوں پر جہاں ان کتب کی فروخت ہوتی تھی قفل لگادیے گئے۔ تُرکی گورنمنٹ نے ذیل کے احکام صادر کردیے:
"ترکی گورنمنٹ اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ اسلام پر کسی طرح کا حملہ برسرِ بازار یا علانیہ کیا جائے۔ وہ مشنریوں کو یا اُن کے کارندوں کو اسلام کے خلاف منادی کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔اس طرح کی کوشش ترکی گورنمنٹ کی نظر میں قومی مذہب پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ وہ کسی مباحثہ کی کتاب کو برسرِ بازار یا علانیہ طور پر تقسیم کرنے یا فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتی"۔ برطانوی سفیر نے ان احکام پر رضامندی ظاہر کردی۔ گو بعد میں بصد مشکل دکانیں کھلوائی گئیں لیکن اپنی جان کے ڈر کے مارے کوئی شخص اُن دُکانوں کے نزدیک نہیں پھٹکتا تھا۔ لیکن ان حالات میں بھی ڈاکٹر فینڈ اپنا کام برابر کرتا رہا۔ قسطنطنیہ میں اُس کی بیوی کی حالت نہایت خراب
== وفات ==
1870ء میں جب فرنچ ملتان گیا تو وہاں کے ایک مولوی نے جو مولوی رحمت اللہ اور ڈاکٹر وزیر خان کا دوست تھا اُس کو بتایا کہ جب قسطنطنیہ میں ڈاکٹر فینڈر کی وعظ منادی اور کتابوں کا شہرہ ہوا تو سلطان نے مولوی رحمت اللہ کو بلوا بھیجا تاکہ ڈاکٹر فینڈر سے مباحثہ کرے۔ لیکن مولوی رحمت اللہ کے
جب فرنچ 1890ء میں انگلستان گیا تو وہ مرحوم کی قبر کی زیارت کرنے کو گیا، وہ لکھتاہے "کل (11 ستمبر) میں دہلی کے مسٹر کیلی (Kelly) کو ہمراہ لے کر اپنے پُرانے اُستاد ڈاکٹر فینڈر کی قبر کی زیارت کرنے کے لیے ہیم (Ham) گیا۔ ہم دونوں نے قبر کے پاس گھٹنے ٹیک کر ہندوستان کے کام کے لیے دعا مانگی"۔
|