"وادی سون" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
نیا صفحہ: سکیسر پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک صحت افزاء مقام کا نام ہے یہ ایک وسیع پہاڑی سلسلے کا عنوان ہے جس میں کئي...
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 23:11، 4 اگست 2010ء

سکیسر پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک صحت افزاء مقام کا نام ہے یہ ایک وسیع پہاڑی سلسلے کا عنوان ہے جس میں کئي وادیاں اور چھوٹے بڑے گاؤں ہین۔ اس علاقے کو "وادی سون سکیسر' کہا جاتا ہے۔ "سون' کالفظ سنسکرت میں سوہن بمعنی خوبصورت کے ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ سوہن کا تلفظ سون کی شکل اختیار کر گيا۔ یوں یہ "سوہن دھرتی" "وادی سون" کے نام سے پککاری جانے لگی۔ "سکیسر " مرکب ہے "سکی" اور سر" سے سنسکرت ہی "سر " تالاب سے عبارت ہے اور سکی سے مراد منی گوتم ہے۔ ایک روایت کے مطابق "ساکیا" ایک قوم کا نام ہے اور "ساکیانی" کا اطلاق مہاتمابدھ پر بھی ہوتا تھا یوں "سکیسر" کا لفظ ساکی سر سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ساکیہ کا تالاب۔[1] ڈاکٹر دانی کا خیال ہے کہ سون سنسکرت میں سونے کو کہا جاتا ہے ۔ سک کسی شخص یاقبیلے کا نام ہے ۔ ایسر دراصل ایشوڑا یعنی دیوتا سے لیا گيا ہے۔

مذکورہ روایت کی تائيد اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس پہاڑ کے دامن میں واقع جھیل اوچھالی کو سکی منی گوتم کا "سر " کہا جاتا ہے۔ اس لسانی تجزیہ اور لغوی تحقیق کے ضمن میں ایک وہم کا ازالہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ دریاۓ سواں اور وادی سون دو الگ الگ نام ہیں۔ دریاۓ سواں سالٹ رینج میں بہتا ہے۔ اس علاقے میں قدیم تہذیبوں کے آثار ملے ہین۔ یہ علاقہ ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ کا ایک عرصہ سے مرکز رہا ہے لیکن وادی سون اس سے علحیدہ علاقہ ہے اگرچہ یہ علاقہ بھی قدیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے مگر آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیق کاموضوع نہیں بن سکا۔ اس کتاب میں ہم نے وادی کی تاریخ اور تہذیبی حیثیت اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے۔ وادی سون کوہستان نمک اور پوٹھوہار ایک سیدھ میں واقع ہے اس علاقے میں ایسے محجرات اور ڈھانچے ملے ہیں۔ جو ساخت اور زمانے کے اعتبار سے پوٹھوہار اور بالخصوص دریاۓ سواں کے قریب ڈھوک پٹھان کے آثار و محجرات سے ملتے جلتے ہیں۔ وادی سون کے سرے پر واقع گاؤں چنچی اور اس کے اردگرد محجرات کے وسیع ذخائر کا پتہ چلایا گيا ہے۔ وادی کےدوسرے گاؤں میں بھی آثار قدیمہ کے مطالعہ سے تاریخ قدیم کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ خیال ہے کہ ابتدائی زمانہ میں یہاں انسانی آبادی نہ تھی یہاں مانس رہتے تھے۔ بعد میں انسان نے ترقی کی اور غاروں میں رہنا شروع کیا۔ وہ کچا گوشت ، پھل اور سبزیاں کھاتے تھے ۔ اس علاقہ میں ہر موسم میں جنگلی پھل مل جاتے تھے اور رہنے کیلۓ غاریں تھیں جنہیں علاقائی زبان میں "مہلے" کہا جاتا ہے ۔ ان آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر انسانی آبادی زمانہ قدیم سے ہے ۔[2]

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. وادی سون سکیسر. محمد سرور خان اعوان
  2. وادی سون سکیسر. محمد سرور خان اعوان

بیرونی روابط

وادی سون سکیسر