"زرمبادلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار درستی+صفائی (9.7)
سطر 1:
{{Wikify}}
== '''توازن ادائیگی''' ==
[[انیسویں صدی]] سے پہلے دنیا کے مختلف ملکوں کی کرنسی کی قدروں میں تبدیلوں کی وجہ سے کسی کرنسی پر اعتماد نہیں کیا جاتا تھا۔ ملکی کرنسی صرف اندرون ملک استعمال ہوتی تھی اور بین الا قوامی لین دین کے لیے سونے پر اعتماد کیا جاتا تھا، کیوں کے دنیا نے سونے کو بین الا قوامی کرنسی تسلیم کیا جاتا تھا، اس لیے بین الا قوامی لین دین میں صرف سونے کو قبول کیا جاتا تھا۔
 
سطر 22:
محصولات درآمد و تجارت کا عام معاہدہGeneral Agreemenet on Tariffs and Trad - (GATT) کے معاہدہ عام کا اجلاس اکتوبرمیں جینوا میں منقد ہوا تھا۔ اس اجلاس سے دنیا کے مختلف ممالک کی
کرنسی کے آزادانہ تبادلہ کو مزید تقویت پہنچی۔ گیٹ کے صدر ولگریسس Wilgracess نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ہم ان ممالک کی کرنسیوں کے آزاادانہ تبادلہ کو مستقبل قریب میں دیکھ لیں گے، جو ممالک دنیا کی تجارت میں حصہ لیتے ہیں اور کرنسیوں کے آزادانہ تبادلے سے کثیر النوع تجارت اور ادائیگی زر کے راستے صاف ہوجائیں گے۔ پھر درآمدی پابندیوں کی ضرورت نہیں رہے گی، جو ہم لڑائی کے زمانے سے برداشت کر رہے ہیں۔
 
کینزKwynes بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی اپنی تجویز میں قرض خواہ ملک کے واجب الوصول قرض پر ایک فیصدی کا سالانہ جرمانہ لگانا چاہتا تھا۔ کیوں کہ بین الاقوامی تجارت کے بگاڑنے میں وہ قرض خواہ ملک کو بھی اتنا ہی ذمہ دار سمجھتا تھا کہ جتنا کہ قرض لینے والے ملک کو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرض خواہ ملک محصول درآمد میں اضافہ کرکے مقروض ملک کا سامان تجارت روک سکتا ہے اور اگر جرمانے کی شق لگی ہو توممکن ہے اپنے محصولات درآمد میں تخفیف کر دے اور اس طرح بین الاقوامی تجارت میں رخنہ نہ پڑے۔
1944 (I M F) International Montry Fund میں برٹن وڈ میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتدامیں اس کے رکن ممالک کی تعداد تیس تھی۔ مگر اگلے سال اس کی رکنیت عام ملکوں کے لیے کھول دی گئی۔ آج کل اس ممبر کے ممالک کی تعددا ۰۵۱051 سے زیادہ ہے IMFکی رکنیت کے لیے ہر رکن اس کے فنڈ میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے۔ یہ حصہ ڈالراور دوسری بین الاقوامی کرنسیوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ یہ جمع شدہ فنڈ IMF کے فنڈ میں ایک جز کے طور پر حصہ لیتا ہے۔ جس کا رائے شماری کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ آبادی معیشت اور دوسرے اہم منصوبوں میں لگایا جاتا ہے۔
 
بین الاقومی مالیاتی فنڈ کاایک خاص مقصد یہ ہے کہ ممبر ملکوں کی کرنسی میں استقلال پیدا کر نے میں معاون ثابت ہو۔IMF زرمبادلہ کی کمی کا شکار ممالک کو رکن ممالک کا فالتو زرمبادلہ دلاتا ہے۔ اس طرح ان کی پریشانیوں کو کم کرتا ہے۔ مختلف ممالک جن کو ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنی ادائیگیاں IMF کی طرف کردیتے ہیں۔ گویا وہ اپنے کوٹے کے بدلے کاغذی کرنسی دیتے ہیں۔
سطر 33:
اگر کسی ملک کو بین الاقومی بازار زر میں اپنے سکے کی اصلی قیمت مقرر کرانا منظور ہے تو اسے شرح زرمبادلہ کے زور دار ہچکولوں کو روکنے کی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی۔ یہ چیز ’حسابات ہمواری Exchange Equalistisation Account ؑتبادلہ زر کے طرز پر حساب ہمواری کے اجزاء سے حاصل ہوسکتی ہے۔ جب کبھی غیر ملکی زرمبادلہ کا نرخ چڑھ جاتا ہے تو حسابات ہمواری تبادلہ زر بازار زر میں کود پڑتے ہیں اور مناسب حد تک اس کے نرخ کو گرادیتے ہیں۔۔ اقتصادی قوتیں خود بخود غیر ملکی زر مبادلہ کی قیمتیں حدود میں رکھتی ہیں۔ کیوں کے غیر ملکی [[کرنسی]] کی مانگ بڑھتی ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور اس کو خود فائدہ نہیں رہتا ہے۔ تبادلہ زر اور عارضی اور فوری ضرورت کے تحت ایک چارہ کار ہیں۔
 
== ''' پاکستان کا ایک فیصلہ''' ==
1049 میں برطانیہ اور بھارت نے اپنے سکے کی قیمت گھٹائی، لیکن پاکستان نے اپنے سکے کی قدر گھٹانے سے انکار کر دیا۔ یہ بہت اہم فیصلہ تھا، اس سے پاکستان کی خود مختاری ثابت ہو گئی۔ اس سے بڑا سیاسی
فائدہ ہوا پاکستان اپنے اس اقدام سے عالمی پریس کی شہ سرخی بن گیااور دنیا کو پتہ چل گیا کہ پاکستان ایک آزاداور خود مختارملک کا نام ہے۔
پاکستانی روپئے کی قیمت نہ گھٹانے کا جہاں سیاسی فائدہ ہوا، وہاں اسے اْقتصادی نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستانی روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کا فوری اثریہ ہوا کہ روئی اور جوٹ کی قیمتیں گر گئیں اور روئی کی قیمت کم ہو کر واپس اپنی سطح پر آگئی اور یہ بیرونی ممالک برآمد کی جانے لگی۔ لیکن جوٹ کے نرخ میں افراتفری پھیل گئی کیوں کہ پاکستان کے گھٹیا جوٹ کا واحد گاہک بھارت تھا۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کا تجارتی توازن شروع سے ہی موافقFavourable Balance of Trade تھا۔ اس لیے بھارت میں پاکستانی سکہ کی قیمت زیادہ رہی تھی۔ اس لیے اقتصادی نقطہ نگاہ سے پاکستانی سکہ کی قیمت بھارت کی کرنسی سے مہنگی ہونی چاہیے۔ لیکن اتنی مہنگی جتنی کہ پاکستان نے مقرر کی تھی۔ یعنی پاکستانی سو روپیہ ۴۴۱441 بھارتی روپیہ۔ بین الا قوامی بازارِ زر میں پاکستان لین دین برطانیہ کی کرنسی اسٹرلنگ میں کرتا تھا، جس کی قدر گھٹ چکی تھی۔ اس لیے اقتصادی نقطہ سے پاکستانی سکے کی قیمت گرچکی تھی۔ لیکن پاکستانی روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کے سبب پاکستان اور بھارت کے تجارتی تعلقات منطقع ہو گئے اور بھارت نے پاکستانی جوٹ اٹھانے سے انکار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں جوٹ کے نرخ گرنے لگے۔ جوٹ کے نرخوں کو گرنے سے روکنے کی خاطر جوٹ کا نرخ اس نرخ سے جو روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کے فیصلے سے قبل تھا نسبتأئ ۹۲92 فیصد کم کر دیا۔ حالانکہ پاکستانی کرنسی کی قیمت شرح مبادلہ کی رو سے اسٹرلنگ ممالک اور بھاتی روپیہ کے مقابلے میں ۴۴44 فیصد زیادہ تھی۔
 
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرکزی بینک ہونے کی حثییت سے حکومت کا خزانہ اس کی تحویل میں تھا اور یہ خزانہ بھارتی روپیہ اور اسٹرلنگ فاضلات کی شکل میں تھا۔ اسٹیٹ بینک ان فاضلات کو پاکستانی کرنسی نوٹوں کی کفالت کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ پاکستانی روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کے فیصلے سے ان فاضلات میں پاکستانی روپیہ کے حساب سے کمی آگئی تھی۔ اس لیے حکومت نے 1950 کے بجٹ میں ۴۵کروڑوپیہ45کروڑوپیہ فاضلات کی مد میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو دیے کہ کرنسی کی زر ضمانت اور زرمحفوظ کرے۔ اس وقت پاکستان کے وزیر خزانہ نے بیان دیا کہ سٹرلنگ اور بھارتی روپیہ کے لحاظ سے ان کی قوت خرید میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے مانا یہ سچ ہے لیکن روپیہ کی شرح کم نہ کر نے کے فیصلے سے ۴۵45 کروڑ کا خصارہ ہوا تھا اور یہ رقم رفاء عامہ کے کسی بھی کام آسکتی تھی۔
جون 1950 تک یہی سلسلہ جاری رہا، پاکستانی روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کا بوجھ جوٹ اور روئی پر پڑا تھا۔ تین مہینے کے بعد کوریا کی جنگ چھڑ گئی،جس سے بازارچڑھ گیا اور روئی اور جوٹ کی قیمتیں چڑھ گئیں اور جوٹ بورڈ جوجوٹ کی نرخوں کو سہارا دینے کے لیے مالی مدد دے رہا تھا۔ اس نے ایک کروڑ روپیہ کا منافعہ کما لیا اور پاکستان کی برآمد 1950-49 88 کروڑکے مقابلے میں یہ رقم 1950-51 ۵۰۲502 کروڑ تک پہنچ گئی۔
 
1951 میں جب کوریا کی جنگ ختم ہوئی تو روئی اور جوٹ کی قیمتیں گر نے لگیں۔ جوٹ کا بورڈ کام کر رہا تھا، اس کے نقصان کا اندازہ 9 کروڑ روپیہ لگایا گیا تھا۔ جب کہ پاکستانی برآمد 150 کروڑ روپیہ تک گر
چکی تھی۔ اس لیے 1953-54 کے بجٹ میں ۴۱41 کروڑ روپیہ اس کے نقصان کی مد میں دکھائی گئی اور پاکستان کی برآمد 128 کروڑ کی ہوئی۔ جب کہ سخت درآمدی پابندیوں کی وجہ سے ۳۱31 کروڑ کا موافق توازن تجارت رہا۔ 1953-54 برآمد 122 کروڑ روپیہ کی ہوئی، جب کہ مندرجہ بالاسبب کے باعث ۹کروڑ9کروڑ کا موافق توازن تجارت ہوا۔ اگست 1955 کو پاکستانی کرنسی کی قدر میں تیس فیصد کم کردی گئی، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور پاکستانی برآمد کوسات سال عرصہ میں ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔
 
== ماخذ ==
نصیر احمد شیخ اسلامی دستور اور اسلامی اقتصادیات کے چند پہلو۔ ۹۵۹۱؁ء9591؁ء نصیر احمد شیخ میکلوڈ روڈ کراچی
BOOK OF ECONOMIC & THEORRY . SIONIER & HAGUE