"ہالہ بنت خویلد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
'''ہالہ بنت خویلد''' (ہالَہ بنت خُوَيْلِد بن أسَد بن عبد العُزى الاسدیہ القُرِشیہ)[[صحابیہ]] [[مہاجر|مہاجرہ]] بہت ابتدائی اسلام لانے والوں میں شامل ہیں ہمارے حضوراکرم ﷺ کی سالی اور [[خدیجہ بنت خویلد|خدیجہ]] کی بہن ہیں ام المؤمنین خدیجہ الکبریٰ کی وجہ سے حضور ﷺ ان سے بڑی محبت فرماتے تھے یہ والدہ ہیں [[ابو العاص بن الربیع]] کی جو خاوند تھے [[زینب بنت محمد|زینب]] بنت رسول اللہﷺ کے <br />
[[عائشہ بنت ابی بکر|سیدہ عائشہ]] سے روایت ہے کہ خدیجہ الکبریٰ کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ کوخدیجہ کا اجازت مانگنا یاد آ گیا تو آپ ﷺ اس کی وجہ سے خوش ہوئے اور آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ یہ تو ہالہ بنت خویلد ہیں مجھے یہ دیکھ کر رشک آ گیا میں نے عرض کیا آپ ﷺ قریش کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بھاری گا لوں والی عورت کو یاد کرتے ہیں جس کی پنڈلیاں باریک تھیں اور ایک لمبی مدت ہوئی وہ انتقال کر چکیں تو اللہ پاک نے آپ ﷺ کو ان سے بہتر بدل عطا فرمایا۔ <ref>صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1781</ref>
[[غزوہ بدر|جنگِ بدر]] کے قیدیوں میں حضور ﷺ کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اور ہالہ بی بی خدیجہ کی حقیقی بہن تھیں اس لیے بی بی خدیجہ نے رسول اﷲ ﷺ سے مشورہ لے کر اپنی لڑکی زینب کا ابو العاص بن الربیع سے نکاح کر دیا تھا۔حضورتھا۔ حضور ﷺ نے جب اپنی نبوت کا اظہار فرمایا تو آپ کی صاحبزادی سیدہ زینب نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابوالعاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ زینب کو اپنے سے جدا کیا ۔کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے زینب کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ زینب کو ان کی والدہ بی بی خدیجہ نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ زینب نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور ﷺکی نظر اس ہار پر پڑی تو بی بی خدیجہ اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ ''اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دو''یہ سن کر تمام صحابۂ کرام نے سرتسلیم خم کر دیا اور یہ ہار بی بی زینب کے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔ <ref>السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ذکر رؤیا عاتکۃ.عاتکۃ۔..الخ،ص270</ref><ref>تاریخ طبری ص 1348</ref>
 
== حوالہ جات ==