"علی ہجویری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ربط+ترتیب+صفائی (9.7)
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 36:
ابو القاسم بن ہوازن القشیری کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں کہ اپنے زمانہ میں نادرالوجود اور بلند مرتبہ بزرگ تھے۔ ہر فن میں آپ کی تصانیف محققانہ اور عمدہ ہیں۔ بے کار بحث و گفتگو اور لغو باتوں سے آپ بالکل الگ رہتے تھے۔ حسین بن منصور کے بارے میں صوفیا میں بحثیں ہوتیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ مردود اور دوسرے کے نزدیک مقبول بارگاہ تھے۔ آپ فرماتے کہ اگر منصور ارباب معافی وحقیقت میں سے تھا تو کوئی چیز اسے خداوند کریم سے علاحدہ نہیں کر سکتی اور اگر خدا کی درگاہ سے مردود تھا تھو مخلوق میں سے کوئی اسے بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں بنا سکتا۔ ہم اسے حوالہء خدا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایاَ مَثَلَ الصّوفِی کَعِلَّۃِ البَرسَامِ اّوَّلہ ھِذیَان وَاٰخِرُہ سَکُوًتُ فَاِزَاتَمَکَّنَ خَرَسَ۔ یعنی جو خیال آئے اسے پاگلوں کی طرح بیان کرتے چلے جانا، ہے اور اس کا آخر سکوت ہے۔ اور جب آدمی درجہ تمکین کو پہنچ جاتا ہے تو گونگا ہو جاتا ہے۔
=== ابو عبد اللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی ===
اپنے استاد ابو عبد اللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی کے متعلق فرماتے ہیں کہ آپ تمام علوم کے عالم اور درگاہ حق کے اہل حشمت میں سے تھے۔ بہت نیک خُلق تھے۔ آپ کا کلام مہذب اور اشارات لطیف ہیں۔ میں نے ان کی کتاب ۔کتاب۔ معانی انفاس۔ کی چند جزیں ان سے سُنی ہیں۔ شیخ سہلکی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بسطام میں ٹڈی دل آیا۔ تمام درخت اور کھیت اس کے بیٹھنے کی وجہ سے سیاہ ہو گئے۔ لوگوں نے بہت شور مچایا۔ شیخ نے پوچھا، یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ٹڈی دل آئی ہے اور لوگ سخت غمزدہ ہیں۔ شیخ اُٹھے اور کوٹھے پر تشریف لے گئے اور منہ آسمان کی طرف کیا۔ اُسی وقت ٹڈی اُڑ گئی اور عصر کی نماز تک ایک ٹڈی بھی کہیں نظر نہیں آتی تھی اور کسی کھیتی کا ایک پتہ تک بھی ضائع نہ ہوا۔
=== ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی ===
ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ آپ طریقت کے جمال اور وقت کے صاحب دبدبہ بادشاہ تھے اور تمام اہل زمانہ آپ کے گرویدہ تھے۔ تعلیم ابتدا میں ابو علی زاہد سے سرخس میں حاصل کی۔ ایک دن میں تین دن کا سبق لیتے اور تین دن اللہ تعالٰیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے۔ آپ نے مسلسل ریاضت اور مجاہدہ کیا۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اعلیٰ مرتبہ پر پہنچایا۔ بہت شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ شیخ ابو مسلم فارسی نے مجھے بتایا کہ میری گودڑی بہت میلی کچیلی تھی۔ آپ کے پاس پہنچا، تو آپ بہت شاہانہ لباس میں تخت پر دراز تھے اور اوپر مصری دیبا کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ اس ٹھاٹھ کے ساتھ فقر کا دعویٰ بھی عجیب بات ہے۔ مجھے دیکھو کہ میں اس گودڑی میں فقر کا دعویٰ کرتا ہوں۔ لیکن میرے کوئی بات زبان پر لائے بغیر آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ باتیں کس دیوان میں لکھی پائی ہیں؟ میں اس پر اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ؛ اَلَتّصَوَّفُ قَیَامُ القَلبِ مَعَ اللہِ، یعنی تصوف تو اللہ سے دل لگانے کا نام ہے۔<br/>
سطر 55:
== دو اہم واقعات ==
اپنے تلاش و جستجو کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک مشکل پیش آئی۔ اس کے حل کے لیے میں نے بہت مجاہدے کیے۔ مگر یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ اس سے پہلے بھی مجھے ایک مشکل پیش آئی تھی اور اس کے حل کے لیے میں نے حضرت شیخ ابو یزید کی قبر کی مجاوری اختیار کر کے اس پر غور و فکر کیا تھا اور میری وہ مشکل وہاں حل ہو گئی تھی۔ اب کے میں نے پھر ایسا کیا۔ برابر تین ماہ تک ان کا مجاور (پڑوسی) بنا رہا۔ ہر روز تین مرتبہ غسل کرتا رہا۔ اور تیس دفعہ وضو کرتا رہا۔ لیکن میری یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا اور راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرا۔ وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ میرے پاس اس وقت موٹے کھُردرے ٹاٹ کی ایک گودڑی تھی۔ اور وہی میں نے پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا۔ اس کے سوا اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا۔ ان صوفیوں نے مجھے بہت حقارت کی نظر سے دیکھا۔ اور اپنے خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا۔ میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ ورنہ ان کے طور طریقوں سے میرا کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے خانقاہ کے نیچے کے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا۔ اور ایک سُوکھی روٹی اور وہ بھی روکھُی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کے لیے اوپر چوبارہ میں جا بیٹھے۔ جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ چوبارہ پر سے وہ طنزیہ انداز میں مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے کے کر بیٹھ گئے۔ اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی۔ میں اپنے دل میں خدا سے کہہ رہا تھا، بارِ خدایا، اگر میں نے تیرے دوستوں کا لباس نہ پہنا ہوا ہوتا تو میں ضرور ان کی ان حرکات کا مزا ان کو چکھادیتا۔ لیکن چونکہ میں اسے خداوند تعالٰیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا، اس لیے جس قدر وہ طعن وملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل جس کے لیے میں مجاہدوں اور اس سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا وہیں حل ہو گئی۔ اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ مشائخ جاہلوں کو اپنے درمیان کیوں رہنے دیتے ہیں اور ان کا بوجھ کس لیے اٹھاتے ہیں۔ نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس سے بعض اوقات وہ عقدے حل ہو جاتے ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتے۔<br/>
عراق کا ایک واقعہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ عراق میں اپنے قیام کے زمانے میں ایک دفعہ میں دنیا کمانے اور اسے خرچ کرنے میں بہت دلیر ہو گیا تھا۔ جس کسی کو ضرورت پیش آتی وہ میری طرف رجوع کرتا اور میں نہ چاہتا کہ میرے دروازے سے کوئی خالی جائے۔ اس لیے اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا، یہاں تک کہ میں بہت زیادہ مقروض اور اس صورت حال سے پریشان ہو گیا۔ آخر وقت کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا؛ ۔لکھا؛۔ بیٹا دیکھو! اس قسم کی مشغولیت میں کہیں خدا سے دور نہ ہو جاؤ، یہ مشغولیت ہوائے نفس ہے۔ اگر کسی کے دل کو اپنے سے بہتر پاؤ۔ تو اس کی خاطر پریشانی اُٹھاؤ۔ تمام مخلوق کے کفیل بننے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ اپنے بندوں کے لیے خدا خود کافی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس نصیحت سے مجھے سکون قلب حاصل ہوا۔ اور میں نے یہ جانا کہ مخلوقات سے دور رہنا صحت وسلامتی کی راہ ہے۔<br/>
انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طرف نہ دیکھے تاکہ کوئی اور بھی اس کی طرف نہ دیکھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ آدمی خود ہی اپنے آپ کو اہم اور بڑی چیز عیاں کرتا ہے ورنہ دنیا اسے کچھ بھی نہیں سمجھتی۔ وہ تو صرف اس سے اپنا کام نکالتی ہے۔
== آپ کا طریق ==
سطر 63:
== لاہور میں آمد اور قیام ==
آپ اپنے مرشد کے حکم سے خدا کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے ؁1030تا1040ء میں لاہور تشریف لائے۔ آپ سے پہلے آپ کے پیر بھائی حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے جب آپ کو لاہور آنے کا حکم ہوا تو آپ فرماتے ہیں، کہ میں نے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں میری کیا ضرورت ہے؟ لیکن شیخ نے فرمایا، نہیں تم جاؤ۔ فرماتے ہیں کہ میں رات کے وقت لاہور پہنچا اور صبح کو حسین زنجانی کا جنازہ شہر سے باہر لایا گیا۔<br/>
تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ نے برصغیر ہند کے دوسرے حصّوں کا بھی سفر کیا۔ چنانچہ آپ ۔آپ۔ کشف المحجوب۔ میں حضرت ابو حلیم حبیب بن اسلم راعی کے حالات میں لکھتے ہیں کہ شیخ رحمتہ اللہ علیہ کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے میں انھیں چھوڑتا ہوں اور مجھے یہ سخت دقت پیش آ رہی ہے کہ میری کتابیں غزنی میں ہیں اور میں ملک ہندوستان کے ایک گاؤں بھنور میں ہوں جو ملتان کے گردونواح میں واقع ہے۔ اور بالکل غیر جنسوں میں گرفتار ہوں۔
== وصال ==
آپ کے وصال شریف کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ سفینۃ الاولیاء میں دار شکوہ نے وصال باکمال [[454ھ]] یا [[464ھ]] ذکر کیا ۔کیا۔ غلام سرور لاہوری نے خزینۃالاولیاءمیں تاریخ وصال [[464ھ]] یا [[466ھ]] ہے ۔ہے۔ اے ،آر نکلس مترجم کشف المحجوب کے نزدیک وصال باکمال [[465ھ]] یا [[469]] کو ہوا ۔
 
== روضہ مبارک ==