"سرمایہ کاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے
سطر 17:
سب منافع تخلیق سرمایاکاری Capital Farmatiom میں خرچ کیا جائے۔ کم ترقی یافتہ ممالک اسی صورت میں ترقی کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی مزدوری کم رکھیں اور نتیجا اخراجات بھی کم رکھیں گے۔ کیوں کہ ہم نے یہ فرض کیاہے کہ مزدور با لکل بچت نہیں کرتے ہیں اور اپنی تمام آمدنی خرچ کردیتے ہیں۔ * لیکن مزدور طبقہ کو اس صبر آزما مصیبت میں مبتلا کرکے کوئی ترقی پزیر ملک اسی صورت میں ترقی کر سکتا ہے، جب کہ تمام کا تمام منافع ترقی کے لیے سرمایا کاری میں لگایا جائے۔ اس قسم کی ضمانت کے لیے
شخصی کاروبار پر پورے طور پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ترقی پزیر ممالک کو ترقی کے ابتدائی مراحل پر حکومتی مداخلت کی زیادہ ضرورت ہے۔
* ''' حکومتی سرمایاکاری''' * پروفیسر نرکسے Prf Essor Nurkse اپنی تصنیف کم ترقی پزیر ممالک میں تخلیق سرمایا کے مسائل‘Problems of Capital Formation in Uderderdeveloped Countries میں لکھتے ہیں کہ“ جاپان پر نظر ڈالو ترقی کے ابتدائی دور میں بالخصوص 1870 سے 1890 کے زمانے میں حکومت نے ترقی کے لیے سرمایاکی فراہمی میں نمایاں حصہ لیا۔ آخر ان کاموں کے لیے سرمایاکس طرح حاصل کیا گیا؟ سخت محصول نافذ کرکے، خصوصیت سے زراعت پیشہ آبادی پر، کبھی کبھی جبری قرضوں سے،سے ، جو شہری آبادی کے متوسط سرمایاکاروں سے وصول کیے جاتے تھے اور توسیع زر سے،سے ، لیکن یہ توسع زر اس پیمانے پر نہیں ہوتی تھی کہ افراط زر کا خطرہ پیداہوجاتا، کیوں کہ یہ توسیع ملک میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ روپیہ کی فراہمی کی ضرورت پوری کرتی تھی۔“ * ڈبلیو آرتھر لیوس W Arthur Lewis نے ’اقتصادی ترقی کا نظریہ‘ Theory of Ecnomic Growth میں لکھا ہے کہ ترقی پزیر ممالک کی قومی آمدنی ۴ یا۵ فیصد ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں یہ اخراجات
قومی آمدنی کے ۲۱ سے ۳۱ فیصد تک ہوتے ہیں۔ مجموعی سرمایاکاری میں ۰۲ فیصدمیں ٹوٹ پھوٹ کے اخراجات اخراجات ۷ یا ۸ فی صد ہوتے ہیں۔ کیوں کہ کسی ملک کی پیداوار کا انحصارا س ملک میں موجود سرمایاکاری پرہوتا ہے، اس لیے ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک کی پیداوار میں دن بدن فرق برھتا جا رہا ہے،جس کا متیجہ یہ ہے کہ ترقی پزیر ممالک کی ترقی یافتہ ممالک کے برابر آنے کی امیدیں دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ ترقی کے موجودہ فرق ہی کو کم از کم برقرار رکھنے کے لیے ترقی پذیرممالک کو اپنی بچت یعنی تخلیق سرمایا کو ۵ فیصد سے بڑھا کر ۲۱ فیصدکرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے اور یہ صرف حکومت ہی پورا کرسکتی ہے کہ سرمایاکاری کے شعبہ میں کمی کوپورا کرسکے۔ کیوں کہ نجی سرمایادار کسی تجویز کو نفع بخش ہونے کی صورت میں اپنائیں گے، نہ کہ اقتصادی ترقی ضرورت محسوس کرکے۔
جب کوئی ملک اس قدر ترقی کرلے کہ تخلیق سرمایا کی زیادہ گنجائش نہ رہے اور اس کے لیے ترقی کی کم شرح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا خاکہ میں مثال کے طور پر 3 فیصد، تو اس قسم کی معیشت میں مزدوری زیادہ ہو نی چاہیے اور شرح منافع کم۔ تاکہ مزدور پیشہ قومی آمدنی کا نسبتأئ زیادہ حصہ ضروریات پر خرچ کرسکیں اور ترقی کی کم شرح کو برقرار رکھ سکیں۔ اس طرح کساد بازاری دور کرنے میں مدد ملتی ہے، کیوں کہ ہم نے فرض کیا ہے کہ وہ اپنی آمدنی صرف پر خرچ کرلیتے ہیں۔ * 29 تا 1933 کی عالمی کساد بازاری کے زمانے سے جب حکومت کی مداخلت کو نہ پسند کرنے والے ممالک خالص پرانے سرمایادارانہ Laissez Faire طریقوں پر عمل پیرا ہوکر ترقی کرنے کے بعدشدید کساد بازاری اور عام بے روزگاری Unemplyment کے جان لیوا درد میں مبتلا ہو گئے تھے۔ حکومت کے اس حق کو مان لیا کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کی رہنمائی کرسکتی ہے یا ان کے اقتصادی معالات میں مداخلت کرسکتی ہے۔ یہ کساد بازاری تجارتی مدو جزر کا ایک مظہر تھی، جو حکومت کی مداخلت سے مبرا سرمایادارانہ نظام معیشت کاجز و لاینفک ہے۔ جس کا وقوع اس دور میں ہوا، جب کہ اقتصادی معاملات میں حکومت کی مداخلت شجر ممنوع کی حیثیت رکھتی تھی۔ لیکن اس مرتبہ کسادبازاری اتنی شدید تھی کہ سرمایادارانہ ممالک کو اپنا نقطہ نظر بدلنا پڑا اور حکومت کو ملک کے اقتصادی معاملات میں مداخلت کا حق منظور کیا اور دنیابھر کے ترقی یافتہ ممالک نے اس کے لیے قوانین مرتب کیے۔ * ماہرین معاشیات نے ریاضیاتی زائچہ کے ذریعے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچادی ہے کہ تعمیر عامہ یا سرمایا کاری کے ابتدائی اضافہ شدہ بڑھتی ہوئی قومی آمدنی کی وجہ سے طلب اشیائے ضروریات میں 10 فیصدی کو قائم رکھنے کے لیے مجموعی ثانوی سرمایا کاری میں 100 فیصدی اضافہ کرنا ضروری ہے۔ اس لیے وہ کہ نجی سرمایا کاروں کے مقابلہ خود بخود سرمایا کاری کے عمل یعنی حکومت کے وسیلہ سے سرمایاکاری کی حمایت کرتے ہیں۔ کیوں کہ نجی ادارے نفع کے چکر میں پڑ کر ثانوی سرمایاکاری میں یکساں شرح کو برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک حکومت کی ابتدائی سرمایا کاری کا تعلق ہے کینز Keynes اس کے لیے رفع عامہ کے شعبے میں سرمایاکاری کی سفارش کرتا ہے۔ * کینز Keynes کا کہنا ہے کہ کساد بازاری کے زمانے میں جب حکومت سرمایا کاری پر روپیہ لگاتی ہے تو وہ مزدور جنہیں روزگارEmplyment ملتا ہے اپنی آمدنی سے اشیائے ضرورت پر خرچ کرتے ہیں، اس لیے اشیائے ضروریات کی طلب بڑھتی ہے۔ تاجر کارخانوں کو آڈر دیتے ہیں۔ کارخانہ دار اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنی مجموعی پیدا وار میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اس مقصد کی خا طر وہ زیادہ مزدور لگادیتے ہیں اور زیادہ مشینری کا آڈر دیتے ہیں۔ مشینیں تیار کرنے والے کارخانے بھی زیادہ مشینیں بنانے لگتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں زیادہ مزدور لگانے پڑتے ہیں اس طرح روزگار میں ہر طرف اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور نتیجتأئ قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ کینز Keynes اس حاصل ضرب کو جو قومی آمدنی کے تغیر اور ابتدائی خرچ کے تغیر کا تناسب ہے (یہاں مراد اس خرچ سے ہے جو حکومت کی سرمایاکاری کے متعلق ہے) مضروب فیہ Multiplier کہتا ہے۔ اس تناسب کی دائمی بقا یعنی قومی آمدنی یا سطح روزگار کے استقلال کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس بچت کو جو اضافہ شدہ آمدنی سے حاصل ہو دوبارہ سرمایاکاری پر لگایا جائے یا دوسرے الفاظ میں ابتدائی خرچ جو سرمایا کاری پر خرچ ہوا ہو کی وجہ سے طلب اشیائے ضروریات میں جو بیشی ہوئی اس کو برقرار رکھنے کے لیے ثانوی سرمایا کاری ضروری ہے۔ * بے روز گاری جو قدیم مکتب کا لازمی نقص ہے اس کو دور کرنے کے لیے ریاست کی مداخلت ضروری ہے کہ وہ سرمایا کاری یعنی تعمیرات عامہ کے پروگراموں کو اختیار کریں۔ اس مکتبہ خیال کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب کوئی فرد نفع و نقصان کی تحریک سے محرک ہو کر قوم کی اقتصادی سعی میں حصہ لیتا ہے تب فرد کا فائدہ قوم سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے اور یہ کہ ان دونوں میں قدرتی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ آدم اسمتھ Adem Smith نے اس کو قدرتی حرکت کہا ہے۔ لیکن کینز Keynes نے اس کو غلط ثابت کر دیاہے۔ اس کا کہنا ہے جب کوئی شخص بچت کرتا ہے تو یہ بچت اس کی اپنی ذات کے مفید ہو سکتی ہے، لیکن جب تمام معاشر ہ ضروریات اور سرمایا کاری کی مدوں سے بچانا شروع کر دے تو قومی آمدنی اور نتیجیتأئ جیسا کہ کینز Keynes نے مساوات آمدنی کے ذریعے ظاہر کیا ہے کہ مجموعی قومی بچت گرجاتی ہے۔ * قدیم معاشیات دانوں کا یہ خیال تھا کہ تعمیرات عامہ مثلأئ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر تجارتی اشیاء کی قیمت میں تخفیف کا باعث ہوتی ہے۔ کیوں کہ کرایا بار برداری کم ہو جاتا ہے۔ اس طرح غریب سے غریب اشخاص بھی یہ چیزیں حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح ان کا معیار زندگی بہتر ہوجا تا ہے۔ لیکن کینزKeynes نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس علاوہ یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ سرمایا کاری قومی دولت میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے اور ملک میں مکمل روزگار کے مواقع پیدا کر دیتی ہے۔ * پروفیسر ہن سن Pro Hansen اپنی کتاب ’مالی نظریہ اور مالیاتی پالیسی‘ Monetary Theory and Fiscal Policy میں لکھتا ہے کہ ”ان لوگوں نے جو عوامی قرضے کی مسلسل تخفیف کے بارے میں