"شیطان" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← صوفیا، دیے، سے، ر\1 عمل، سے، کی بجائے |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
||
سطر 7:
==== مسلمان صوفیا کے ہاں تصور شیطان====
جن مسلمان صوفیا نے ابلیس کا خاص انداز میں ذکر کیا ہے۔ ان میں [[حسین بن منصور حلاج|منصور حلاج]]، [[مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی|مولانا روم]]
* ابلیس خدا کے ارادوں کی مشیت کا ایک ایسا کارندہ ہے جس کے فرائض سب سے زیادہ
* شیطان اس زیرکی کا نام ہے جو عشق سے معریٰ ہو کر ادنی مقاصد کے حصول میں حیلہ گری کرتی ہے۔(مولانا روم
* ابلیس ارادے میں آزاد ہے۔ ابن عربی
سطر 26:
=== دانتے ===
دانتے مشہور اطالوی شاعر ہیں اس نے اپنی عظیم رزمیہ داستا ن ”ڈیوائن کامیڈی “ میں شیطان کا کردار پیش کیا ہے۔ دانتے کا شیطان بالکل قدیم مذہبی نوعیت کا شیطان ہے جس کا تصویر بائبل میں ملتاہے۔ یہ بہت ہیبت ناک اور ساکن
=== ملٹن ===
یہ ایک مشہور شاعر ہے۔ اس کی نظم ”جنت گم گشتہ “ میں ابلیس کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ ملٹن کا شیطان ایک زبردست شخصیت کا مالک ہے۔ جو اتنا ہیبت ناک ہے کہ دوزخ اس کے قدموں تلے کانپتی ہے۔ اس نے خدا سے شکست کھائی ہے۔ لیکن ہمت نہیں
=== گوئٹے ===
سطر 38:
== علامہ اقبال کا تصور شیطان==
اقبال نے ابلیس(شیطان) کے بارے میں اپنا فلسفہ مرتب کرتے وقت نہ صرف قدیم
” اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور ان کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک
=== نظم” تسخیر فطرت“ میں شیطان کے خدوخال ===
شیطان جو رسمی مذہب میں بد ی کا مجسمہ ہے اسے اقبال نے اس حیثیت سے پیش کیا ہے کہ وہ جبر و تحکم کے علمِ بغاوت کو بلند کرنے والا اور بندہ ئے دام کی بجائے خود آزادانہ فیصلہ کرنے والا ایک منفرد کردار بن جاتا ہے۔ وہ اپنے اس اقدام سے ایک زبردست معرکہ چھیڑدیتا ہے جو افراد کے اندرونی رجحانات اورخارجی ماحول کے درمیان ہمیشہ جاری رہے گا۔ تمام فرشتوں میں یہ ایک اسی کی ذات تھی جس نے خدا کے حکم پر آد م کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور خدا کے اس سوال پر کہ اس نے یہ خطرناک جرات کیوں
#میلاد ِ آدم
سطر 51:
#آدم از بہشت بیروں آمدہ می گوید٥) صبح قیامت آدم در حضور ِ باری
یہاں بھی انسانی تخلیق اور اس کی شخصیت کی تکمیل میں شیطان کا حصہ اگرچہ وہی پرانا قصہ ہے اور تمام مذہبی صحیفوں میں موجود ہے۔ لیکن یہاں اقبال نے شیطان کا ایک منفر د اور ڈرامائی انداز پیش کیا ہے۔ انسان کی آفرینش قدرت کا اعلیٰ ترین شہکار
می تپداز سوزِ
من بہ دو
پروفیسر [[تاج محمد]] خیال نظم پر تبصرہ کرنے ہوئے لکھتے ہیں، ” یہاں اقبال نے شیطان کواپنے اندرونی جذبات یعنی جذبہ مسابقت، دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے اور غلبہ پانے کی آرزو کا آزاد اظہار کرتے دکھایا ہے۔ ماحول کی قوتوں کے مقابل میں رد عمل اور انہیں متاثر کرنے جو فطری رجحان ہر جاندار مخلوق میں پایا جاتا ہے۔ تو گویا شیطان اسی رجحان کی ایک رمزیہ شکل ہے۔ یہ رجحان زندگی کا ایک جوہر ہے اور تمام
=== نظم جبرئیل و ابلیس ===
بال جبریل کی نظم ”جبریل و ابلیس “ بھی اقبال کے تصور ابلیس پر روشنی ڈالتی ہے۔ نظم ایک دلچسپ مکالمے کی شکل میں ہے، جس میں جبرئیل اپنے ہمدم دیرینہ شیطان سے بڑے دوستانہ لہجے میں پوچھتا ہے کہ جہانِ رنگ و بو کا حال کیسا ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتاؤ، شیطان اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جہاں عبادت ہے سوز و ساز وردو جستجو ہے۔ جبریل اُسے کہتا ہے کہ آسمانوں پر ہر وقت تیرا ہی چرچا رہتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے اور پھر سے ذات باری کا قرب حاصل کر لے؟ جواب میں شیطان کہتا ہے کہ میرے لیے اب یہ ممکن نہیں، میں آسمان پر آکر کیا کروں گا۔ وہاں کی خاموشی میں میرا دم گھٹ کر رہ جائے گا۔ آسمان پر زمین کی سی گہما گہمی اور شورش کہاں ہے۔ جبرئیل یہ باتیں سن کر بہت ناخوش ہوتے ہیں اور دکھ بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ اسی انکار کی وجہ سے تو نے اپنے مقاماتِ بلند کھو دیے اور اسی سے تو نے فرشتوں کی
ہے مری جرات سے مشتِ خاک میں ذوق نمو<br>
سطر 81:
=== نظم ”تقدیر“ میں ابلیس کے نقوش ===
ضرب کلیم میں ”تقدیر “ کے عنوان سے ایک نظم ہے جس کا ذیلی عنوان ہے۔ ”ابلیس و یزداں “ اس نظم کا مرکزی خیال ابن ِ عربی سے ماخوذ ہے۔ یہاں بھی ابلیس اور یزداں کے درمیان گفتگو ہوئی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ اے خدا مجھے آد م سے کوئی بیر تھا اور نہ تیرے سامنے تکبر کرنا میرے لیے ممکن تھا۔ بات صرف اتنی ہے کہ تیری مشیت میں ہی میرا سجدہ کرنا نہیں لکھا تھا۔ خدا پوچھتا ہے کہ تجھ پر یہ راز انکار سے پہلے کھلا یا انکار کے
پستی فطرت نے سکھائی ہے یہ حجت اِ سے <br>
سطر 99:
آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو
بقول تاج محمد خیال: ” ان کا نظریہ شیطان رسمی عقائد سے خواہ کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو شیطان پھر بھی شیطان ہے۔ اس کی شخصیت خواہ کتنی ہی شاندار ہو اور اس کا کردار خواہ کتنا ہی اہم ہو پھر بھی شیطان جن رجحانات کا مظہر ہے اگر انسان بالکل انہی رجحانا ت کا مطیع ہو جائے گا تو نتیجہ ابدی انتشار و
== حوالہ جات ==
|