"لہری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 150:
 
==تاثرات وتبصرے==
لہری [[برصغیر]] کی فلمی دنیا اپنی طرز کے منفرد اداکار تھے ۔تھے۔ ان کے بعد فلمی دنیا، ٹی وی اور سٹیج میں مزاح سے وابستہ ہونے والے تمام لوگ ان کی ہنرمندی اور بڑائی کے قائل ہیں اور ان میں سے بیشتر سمجھتے ہیں کہ لہری ایک ایسے اداکار تھے جنھوں نے نہ صرف فلمی دنیا میں اپنے لیے جگہ بنائی بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی مزاح کا ایک نیا راستہ دکھایا۔
===خوبی===
لہری کی خاص بات ان کے ڈائیلاگز تھے۔ جس انداز سے وہ بولتے وہی ان کی پہچان بنا۔۔ ان کی بذلہ سنجی کا کمال دیکھیے کہ بیمار ہوں یاپریشان کبھی شکن نہ آئی ماتھے پر۔۔ لہری نے ہمیشہ ایسی کامیڈی کی جس پر شائقین ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجائیں۔۔۔۔ لیکن ان کے جملوں پر کوئی ناراض نہیں ہوا۔۔۔ لہری کو بارہ [[نگار ایوارڈز]] اور فلم انڈسٹری کی جانب سے خصوصی ایوارڈز سے نوازا گیا۔۔
سطر 169:
 
===بذلہ سنجی===
خود داری کے ساتھ ساتھ لہری کا فن ظرافت بھی ابھی زندہ ہے۔ کراچی میں آخری ایام میں میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران بھی جہاں انہوں نے اپنے اوپر گزرنے والی تکالیف کا ذکر کیا وہیں اپنے مخصوص فن کو وہ فراموش نہ کرسکے۔ ان کا کہنا تھا "میں ڈھائی کمرے کے فلیٹ میں مقیم ہوں اور کے ای ایس سی نے اسی فلیٹ کا بل 36500روپے بھیجا ہے۔ جب میرے بچوں نے مجھے بل دکھایا تو میں نے سوچا شاید کسی کا فون نمبر لکھا ہے لیکن وہ مجھ پر واجب الادا رقم تھی۔ یہ مجھ پر ڈینگی وائرس سے بڑا حملہ ہے ۔ہے۔ اس قدر بڑی رقم دیکھ کر میں پریشان ہوں کہ اب کس طرح گزارہ ہو گا"۔
 
==آخری ایام==
ان کا آخری ایوارڈ نگار ایوارڈ تھا جو 1993ء میں ان کی فلمی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔
لہری پر سب سے پہلے 1985ء میں بنکاک میں فلم کی شوٹنگ کے دوران فالج کا اٹیک ہوا، پھر قوت بینائی میں کمی آنے لگی، اس طرح وہ فلمی دنیا سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے چلے گئے۔
طویل ترین بیماریوں نے لہری کو نہایت کمزور کر دیا ہے۔ وہ فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ ذیابیطیس کے بھی مریض ہیں۔ پہلے بھی کئی مرتبہ اسپتالوں میں انگنت دن گزار چکے ہیں۔ ذیابیطس کے مرض میں ہی ان کی ایک ٹانگ کاٹنا پڑی ۔پڑی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام میں اداکار [[معین اختر]] نے ان کی بڑی دیکھ بھال کی ۔کی۔ انتقال سے پہلے عید الفطر کے دوسرے روز سے کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں انہیں پھیپھڑ وں میں پانی بھر جانے کے باعث لایا گیا تھا تاہم ان کی حالت زیادہ خراب ہونے پر انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
 
13 ستمبر 2012 میں طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوا۔<ref>{{حوالہ جال