"موریا سلطنت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے، راجستھان
سطر 58:
بی ایس ڈاہیا کا کہنا ہے کہ یہ تمام روایات بے بنیاد ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ تمام داستانیں فرضی ہیں ان میں زرہ پھر سچائی نہیں ہے موریا خاندان کا مور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مور ان کی خاندانی یا پسندیدہ علامت ہے۔ ستون پر کندہ اشوک کے شاہی فرمان نمبر ۵ میں ان جانوروں اور پرندوں کی فہرست دی گئی جن کو مارنا منع ہے، لیکن ان میں مور شامل نہیں ہے۔ اشوک کی خوراک جو جانور شامل تھے ان میں کو بھی شامل تھا۔ یہ لوگ مور خور تھے نہ کہ مور کے محافظ۔ یہ کیسے ممکن ہے موروں کے رکھوالے کا بیٹا (چندر گپت) ایک ہزار میل دور ٹیکسلا جو شہزادوں کی عظیم درس گاہ تھی تعلیم پاتا تھا۔
یونانی تاریخیں میں کہیں بھی اس کی نشان دہی نہیں ہوتی ہے کہ موریاؤں کا تعلق نندا خاندان سے ہے۔ موریہ کون تھے؟ چانکیہ اس کے بارے میں اپنی تصنیف ارتھ شاستر میں ایک لفظ نہیں کہتا ہے۔ پران موریہ حکمرانوں کے بارے میں کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کرتی ہیں۔ ’مدرا راکش‘ سنسکرت کے ڈراما نگار وشاکھ دت نے موریاؤں کو انہیں شودر، ورشل اور کمینہ کہہ کر حقارت کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا ہے اور خود چندر گپتا کو کلاہن (مجہو الاصل) کہا ہے۔ جب کہ ’یوگ پران‘ نے انہیں بے دین بظاہر دین دار کہا ہے۔ وشنو پران کہتا ہے نندا کی نسل کے خاتمہ کے بعد موریا قابض ہوجائیں گے اور انہیں شودر کہا ہے۔ مارکنڈیا پران میں انہیں ہے اسور کہا گیا۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس نفرت کا سبب کیا ہے۔ اس جانب ایک اشارہ ہے کہ معاشرے کے بارے میں بالعوم اور برہمنی رسوم کے بارے میں بالخصوص موریاؤں کا روئیہ ہے۔ موریاؤں نے تمام برہمنی رسومات ختم کر دیں۔ انہوں نے رسمی طور پر برہمنی مذہب کی مخالفت کی اور اس کے برعکس انہوں نے بیواؤں کی شادی کی حمایت کی۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ موریا غیر ملکی تھے۔ اس لیے وہ برہمنوں کی بالا دستی کو نہیں مانتے تھے۔ وہ ہندو مذہب کے روایتی، سماجی مذہبی اور سیاسی نظریات کی مخالفت کرتے اور وہ ذات پات کو نہیں مانتے تھے۔
اور مزید ان کا کہنا ہے اس کی حقیقت وسط ایشیائی کلمہ ’مور‘ جس کے معنی تاج کہ ہے، یہ وہی کلمہ ہے جس کو موڈ بھی بولا جاتا یعنی وہ تاج جو دولہا شادی کہ موقع پہنتا ہے۔ کیوں وسط ایشا کہ لوگ کلمہ کو ڑ اور ڈ ساتھ بھی بھی بولتے ہیں، اس لیے اسے سنسکرت کو ’موڈ‘ سمجھا گیا، جس کے معنی مسرت اور خوشی کے ہیں۔ انہوں نے اس کلمہ پر تفصیلی بحث کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ کڑٹس کہتا ہے سندھ میں پٹالا کے بادشاہوں نے بھی اس کلمہ کو اپنے ناموں کے ساتھ لگایا ہے اور یہ کلمہ وہی ہے جس کو یونانیوں نے موئز کہا ہے، یہ کلمہ وسطہ ایشیا میں بھی ایک قبیلہ کا نام تھا اور وہاں اب بھی موجود ہے اور اس کا نام بھی یہی ہے۔ موریا، خوتان ترکستان اور دیگر علاقوں کے علاوہ کشمیر کے بھی حکمران تھے۔ پاپا اول سے پہلے موریا راجھستانراجستھان میں جتوڑ کے حکمران تھے، وہ خود مور راجہ کی لڑکی کا بیٹا تھا۔ اس طرح مہرت راجہ چتوڑ جس کا ذکر چچ نامہ میں ذکر ملتا ہے مور یا موری قبیلہ کی شاخ اور سندھ کے رائے ساسی کا رشتہ دار تھا۔ نیل گری کے پہاڑوں پر چند قدیم مجسموں کا حوالہ دیتے ہوئے فادر مٹز کہتا ہے کہ وہ موریا ری مان (موریا گھرانا کہلاتے تھے۔ وہ انہیں تار تار یا ازبک تسیلم کرتا ہے۔
== چندر گپت موریا ==
[[چندرگپت موریا]]سے تاریخ ہند کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جو شمالی ہند کے اتحاد اور ہندو تمذن کی نشونماہ نظام حکومت کی توسیع اور برہمنت کے اثر و رسوخ کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ پہلا حکمران ہے جس نے شمالی ہند کی تمام ریاستوں کو زیر کرکے ایک متحدہ حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنی مملکت کو خلیج بنگال سے لیکر بحیرہ عرب تک وسیع کیا۔ اس نے اپنے چوبیس سالہ (322ء؁ تا 298ء؁ ق م) دور میں بڑی بڑی جنگیں لڑیں، جس میں سب سے اہم جنگ سکندر کے سالار سلوکس Seleuces سے لڑی۔ سلوکس نے سکندر کے مفتوع علاقوں کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ سلوکس نے 305 ؁ ق م میں پاک وہند کی طرف قدم بڑھایا، مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پنجاب کی سرزمین پر شکست کھانے کے بعد ایک شرمناک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ جس کے رو سے وہ نہ صرف ہندی مقبوضات سے بلکہ کابل، قندھار، ہرات اور بلوچستان سے بھی دستبردار ہو گیا۔ نیز تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے اس نے اپنی بیٹی کی شادی چندر گپت سے کردی۔ چندر گپت نے محض اس کی بات رکھنے کے لیے پانسو ہاتھیوں کا تحفہ بھیجا۔