"سورہ کہف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← ئے، اور، سے، \1 رہا، سے، \1 رہی، \1 رہے، صورت حال
م خودکار درستی+صفائی (9.7)
سطر 35:
 
یہ سورت مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی جو انہوں نے نبی {{درود}} کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔ [[اصحاب کہف]] کون تھے؟ قصۂ [[خضر علیہ السلام|خضر]] کی حقیقت کیا ہے؟ اور [[ذوالقرنین]] کا کیا قصہ ہے؟ یہ تینوں قصے [[مسیحی|مسیحیوں]] اور [[یہودی|یہودیوں]] کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا، اسی لیے [[اہل کتاب]] نے امتحان کی غرض سے ان کا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد {{درود}} کے پاس کوئی غیبی ذریعۂ علم ہے یا نہیں۔ مگر [[اللہ تعالٰی{{ا}}]] نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح ا{{پیش}}س صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان درپیش تھی:
 
#اصحاب{{زیر}} کہف کے متعلق بتایا کہ وہ ا{{پیش}}سی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویے سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہیے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ضمنا{{دوزبر}} کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اٹھایا، اسی طرح ا{{پیش}}س کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔
#اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کردی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی {{درود}} کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے چند روز عیش{{زیر}} زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائیدار ہے۔