"شرک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 32:
 
دوسرے معنی کا شرک یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا کفر سے خاص ہے کفر اس سے عام یعنی ہر شرک کفر ہے مگر ہر کفر شرک نہیں۔ جیسے ہر کوا کالا ہے مگر ہر کا لا کو انہیں۔ ہر سوناپیلا ہے مگر ہر پیلا سونانہیں۔ لہٰذا دہر یہ کافر ہے مشرک نہیں اور ہند ومشرک بھی ہے کافر بھی۔ قرآن شریف میں شرک اکثر اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے
# جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیۡمَاۤ اٰتٰہُمَا
 
'''ان دونوں نے خدا کے برابر کر دیا اس نعمت میں جو رب تعالیٰ نے انہیں دی۔'''<ref>(پ9،الاعراف: 190)</ref>
# حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾﴿ۚ79﴾
 
'''میں تمام برے دینوں سے بیزار ہوں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔'''<ref>(پ7،الانعام:79)</ref>
# اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾﴿13﴾
 
'''بے شک شرک بڑا ظلم ہے ۔'''<ref>(پ21،لقمٰن:13)</ref>
# وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾﴿106﴾
 
'''ان میں سے بہت سے لوگ اللہ پر ایمان نہیں لائے مگر وہ مشرک ہوتے ہیں۔'''<ref>(پ13,یوسف:106)</ref>
سطر 47:
ان جیسی صدہا آیتو ں میں شرک اس معنی میں استعمال ہوا ہے بمعنی کسی کو خدا کے مساوی جاننا۔
 
== شرک کی حقیقت ==
 
شرک کی حقیقت رب تعالیٰ سے مساوات پر ہے یعنی جب تک کسی کو رب کے برابر نہ جانا جائے تب تک شرک نہ ہوگا اسی لیے قیامت میں کفار اپنے بتوں سے کہیں گے ۔
 
تَاللہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾﴿ۙ97﴾
 
'''خدا کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے کہ تم کورب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے ۔'''<ref>(پ19،الشعرآء:97)</ref>
 
اس برابر جاننے کی چند صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی کو خدا کا ہم جنس مانا جائے جیسے مسیحی عیسی علیہ السلام کو اور یہودی عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے چونکہ اولاد باپ کی ملک نہیں ہوتی بلکہ باپ کی ہم جنس اور مساوی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ ماننے والا مشرک ہوگا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
# وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾﴿ۙ26﴾
 
'''یہ لوگ بولے کہ اللہ نے بچے اختیار فرمائے پاکی ہے اس کے لیے بلکہ یہ اللہ کے عزت والے بندے ہیں ۔'''<ref>(پ17،الانبیاء:26)</ref>
سطر 62:
 
'''یہودی بولے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور مسیحی بولے کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ۔'''<ref>(پ10،التوبۃ:30)</ref>
# وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا ؕ اِنَّ الْاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵﴾﴿ؕ٪15﴾
 
'''بنادیا ان لوگوں نے اللہ کے لیے اس کے بندوں میں سے ٹکڑا بے شک آدمی کھلا ناشکرا ہے۔'''<ref>(پ25،الزخرف:15)</ref>
سطر 68:
 
'''انہوں نے فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیں عورتیں ٹھہرایا کیا ان کے بناتے وقت یہ حاضر تھے ۔'''<ref>(پ25،الزخرف:19)</ref>
# اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىکُمۡ بِالْبَنِیۡنَ ﴿۱۶﴾﴿16﴾
 
'''کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیا ں بنالیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ خاص کیا۔'''<ref>(پ25،الزخرف: 16)</ref>
سطر 74:
 
'''اور اللہ کا شریک ٹھہرایا جنوں کو حالانکہ اس نے ان کو بنایا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیں جہالت سے ۔'''<ref>(پ7،الانعام:100)</ref>
# لَیُسَمُّوۡنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنۡثٰی ﴿۲۷﴾﴿27﴾
 
'''یہ کفار فرشتوں کا نام عورتوں کا سا رکھتے تھے ۔'''<ref>(پ27،النجم:27)</ref>
سطر 81:
 
خالق خیر کو'' یزداں'' اور خالق شر کو ''اہر من ''کہتے ہیں۔ یہ وہی پرانا مشر کا نہ عقیدہ ہے یا بعض کفار کہتے تھے کہ ہم اپنے برے اعمال کے خود خالق ہیں کیونکہ ان کے نزدیک بری چیزوں کا پیدا کرنا براہے لہٰذا اس کا خالق کوئی اور چاہیے اس قسم کے مشرکوں کی تردید کے لیے یہ آیات آئیں۔ خیال رہے کہ بعض مسیحی تین خالقوں کے قائل تھے جن میں سے ایک عیسی علیہ السلام ہیں ان تمام کی تردید میں حسب ذیل آیات ہیں۔
# وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾﴿96﴾
 
'''اللہ نے تم کو اور تمہارے سارے اعمال کو پیدا کیا ۔'''<ref>(پ23،الصافات:96)</ref>
# اَللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿۶۲﴾﴿62﴾
 
'''اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا مختار ہے۔'''<ref>(پ24،الزمر:62)</ref>
سطر 99:
 
'''بے شک کافر ہو گئے وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ تین خداؤں میں تیسرا ہے ۔'''<ref>(پ6،المآئدۃ:73)</ref>
# لَوْکَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَت
 
'''اگر زمین وآسمان میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں بگڑجاتے۔ َا''' <ref>(پ17،الانبیآء:22)</ref>
سطر 113:
 
اس قسم کے دہر یوں کی تردید کے لیے تمام وہ آیات ہیں جن میں حکم دیا گیا ہے کہ عالم کی عجائبات میں غور کر و کہ ایسی حکمت والی چیز یں بغیر خالق کے نہیں ہوسکتیں۔
# یُغْشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾﴿3﴾
 
'''ڈھکتا ہے رات سے دن کو اس میں نشانیاں ہیں فکر والوں کے لیے۔'''<ref>(پ13،الرعد:3)</ref>
# اِنَّ فِیۡ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلْبَابِ ﴿۱۹۰﴾﴿190﴾
 
'''بے شک آسمان وزمین کی پیدائش اور دن رات کے گھٹنے بڑھنے میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے ۔'''<ref>(پ4،اٰل عمرٰن:190)</ref>
# وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ﴿ۙ20﴾وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمْ ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾﴿21﴾
 
'''اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لیے اور خود تمہاری ذاتوں میں ہیں تو تم دیکھتے کیوں نہیں ۔'''<ref>(پ26،الذٰریٰت:20،21)</ref>
# اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتْ ﴿ٝ۱۷﴾وَ﴿ٝ17﴾وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتْ ﴿ٝ۱۸﴾وَ﴿ٝ18﴾وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتْ ﴿ٝ۱۹﴾وَ﴿ٝ19﴾وَ اِلَی الْاَرْضِ کَیۡفَ سُطِحَتْ ﴿۲۰﴾ٝ﴿20﴾ٝ
 
'''کیا یہ نہیں دیکھتے اونٹ کی طر ف کہ کیسے پیدا کیا گیا اور آسمان کی طرف کہ کیسا اونچا کیاگیااورپہاڑوں کی طرف کہ کیسے گاڑاگیا اور زمین کی طر ف کہ کیسے بچھائی گئی ۔'''<ref>(پ30،الغاشیۃ:17۔20)</ref>
سطر 128:
اس قسم کی بیسیوں آیات میں ان دہر یوں کی تردید ہے ۔
چوتھے یہ عقیدہ کہ خالق ہر چیز کا تو رب ہی ہے مگر وہ ایک بار پیدا کر کے تھک گیا،اب کسی کام کانہیں رہا،اب اس کی خدائی کی چلانے والے یہ ہمارے معبودین باطلہ ہیں۔ اس قسم کے مشرکین عجیب بکواس کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ چھ دن میں آسمان زمین پیدا ہوئے اور ساتواں دن اللہ نے آرام کا رکھا تھکن دور کرنے کواب بھی وہ آرام ہی کر رہا ہے۔ چنانچہ فرقہ تعطیلیہ اسی قسم کے مشرکوں کی یاد گار ہے۔ ان کی تردید ان آیا ت میں ہے :
# وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ ﴿۳۸﴾﴿38﴾
 
'''اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے چھ دن میں بنایا اور ہم کو تھکن نہ آئی'''<ref>(پ26،قۤ:38)</ref>
# اَفَعَیِیۡنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ؕ بَلْ ہُمْ فِیۡ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیۡدٍ ﴿٪۱۵﴾﴿٪15﴾
 
'''تو کیا ہم پہلی بار بنا کر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہ میں ہیں'''<ref>۔(پ26،قۤ:15)</ref>
سطر 137:
 
'''اور کیا ان لوگو ں نے غور نہ کیا کہ اللہ نے آسمانوں او رزمین کو پیدافرمایا اور انہیں پیدا کر کے نہ تھکا وہ قادر اس پر بھی ہے کہ مردو ں کو زندہ کر ے ۔'''<ref>(پ26،الاحقاف:33)</ref>
# اِنَّمَاۤ اَمْرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾﴿82﴾
 
'''اس کی شان یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے ۔'''<ref>(پ23،یٰسۤ:82)</ref>
سطر 147:
یہ عقیدہ ہے کہ ہر ذرہ کا خالق ومالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر وہ اتنے بڑے عالم کو اکیلا سنبھالنے پر قادر نہیں اس لیے اس نے مجبور اً اپنے بندوں میں سے بعض بندے عالم کے انتظام کے لیے چن لیے ہیں جیسے دنیاوی بادشاہ اور ان کے محکمے، اب یہ بندے جنہیں عالم کے انتظام میں دخیل بنایا گیا ہے وہ بندے ہونے کے باوجود رب تعالیٰ پردھونس رکھتے ہیں کہ اگر ہماری شفاعت کریں تو رب کو مرعوب ہوکر ماننی پڑے اگر چاہیں تو ہماری بگڑی بنادیں، ہماری مشکل کشائی کر دیں،جو وہ کہیں رب تعالیٰ کو ان کی ماننی پڑے ورنہ اس کا عالم بگڑجاوے جیسے اسمبلی کے ممبرکہ اگر چہ وہ سب بادشاہ کی رعایا تو ہیں مگر ملکی انتظام میں ان کو ایسا دخل ہے کہ ملک ان سب کی تدبیر سے چل رہا ہے۔ یہ وہ شرک ہے جس میں عرب کے بہت سے مشرکین گرفتا ر تھے اور اپنے بت ودّ، یغوث، لات ومنات وعزی وغیرہ کو رب کا بندہ مان کر اور سارے عالم کا رب تعالیٰ کو خالق مان کر مشرک تھے۔ اس عقیدے سے کسی کو پکارنا شرک، اس کی شفاعت ماننا شرک، اسے حاجت روا مشکل کشا ماننا شرک، اس کے سامنے جھکنا شر ک، اس کی تعظیم کرنا شرک، غرض کہ یہ برابری کا عقیدہ رکھ کر اس کے ساتھ جو تعظیم وتو قیر کا معاملہ کیا جاوے وہ شرک ہے۔ ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے
 
وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾﴿106﴾
 
'''ان مشرکین میں سے بہت سے وہ ہیں کہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے۔'''<ref>(پ13،یوسف:106)</ref>
 
کہ خدا کو خالق، رازق مانتے ہوئے پھر مشرک ہیں، انہی پانچویں قسم کے مشرکین کے بارے میں فرمایا گیا :
# وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوۡنَ ﴿۶۱﴾﴿61﴾
 
'''اگر آپ ان مشرکوں سے پوچھیں کہ کس نے آسمان و زمین پیدا کیے او رکام میں لگائے سورج اور چاند تو وہ کہیں گے اللہ نے تو فرماؤ کہ کیوں بھولے جاتے ہیں ۔'''<ref>(پ21العنکبوت:61)</ref>
# قُلْ مَنۡۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۸﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ﴿88﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوۡنَ ﴿۸۹﴾﴿89﴾
 
'''فرمادو کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے قبضے میں ہے جو پناہ دیتا ہے اور پناہ نہیں دیا جاتا بتا ؤ اگر تم جانتے ہو تو کہیں گے اللہ ہی کی ہے کہو پھر کہا ں تم پر جادو پڑا جاتا ہے ۔'''<ref>(پ18المؤمنون:88۔89)</ref>
# وَ لَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوۡلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیۡزُ الْعَلِیۡمُ ﴿ۙ۹﴾﴿ۙ9﴾
 
'''اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کس نے پیدا کیے تو کہیں گے کہ انہیں غالب جاننے والے اللہ نے پیدا کیا ہے ۔'''[[(پ25،الزخرف:9)]]
# قُلۡ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۴﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ﴿84﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۸۵﴾﴿85﴾
 
'''فرماؤ کس کی ہے زمین اور اس کی چیزیں اگر تم جانتے ہو تو کہیں گے اللہ کی فرماؤ کہ تم نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے ۔'''<ref>(پ18،المؤمنون:84۔85)</ref>
# قُلْ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیۡمِ ﴿۸۶﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ﴿86﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۸۷﴾﴿87﴾
 
'''فرماؤ کہ سات آسمان اور بڑے عرش کا رب کون ہے؟ توکہیں گے اللہ کا ہے فرماؤ کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ۔'''<ref>(پ18،المؤمنون:86۔87)</ref>
# قُلْ مَنۡ یَّرْزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرْضِ اَمَّنۡ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَ الۡاَبْصَارَ وَ مَنۡ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمْرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۳۱﴾﴿31﴾
 
'''فرماؤ تمہیں آسمان وزمین سے رزق کو ن دیتا ہے یا کان آنکھ کاکون مالک ہے اورکون زندے کو مردے سے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور کاموں کی تدبیر کو ن کرتاہے تو کہیں گے اللہ!فرماؤتوتم ڈرتے کیوں نہیں؟'''<ref>(پ11،یونس:31)</ref>
# وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوۡنَ ﴿۶۱﴾﴿61﴾
 
ا'''ور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے سورج وچاند تا بعدار کیا تو کہیں گے اللہ نے تو فرماؤ تم کدھر پھر ے جاتے ہو۔'''[[(پ21،العنکبوت:61)]]
سطر 177:
'''اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمان سے پانی اتاراپس زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کیا تو کہیں گے اللہ نے ۔'''[[(پ21،العنکبوت:63)]]
 
ان جیسی بہت سی آیات سے معلوم ہوا کہ یہ پانچویں قسم کے مشرک اللہ تعالیٰ کو سب کا خالق ،مالک، زندہ کرنے والا، مارنے والا، پناہ دینے والا، عالم کا مدبر مانتے تھے مگر پھر مشرک تھے یعنی ذات، صفات کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک رہے کیوں؟ یہ بھی قرآن سے پوچھیے۔ قرآن فرماتا ہے کہ ان عقائد کے باوجود وہ دو سبب سے مشرک تھے ایک یہ کہ وہ صرف خدا کو عالم کا مالک نہیں مانتے تھے بلکہ اللہ کوبھی اور دوسرے اپنے معبودوں کو بھی۔ یہاں'' للہ ''میں لام ملکیت کا ہے یعنی وہ اللہ کی ملکیت مانتے تھے مگر اکیلے کی نہیں بلکہ ساتھ ہی دوسرے معبودوں کی بھی،اسی لیے وہ یہ نہ کہتے تھے کہ ملکیت وقبضہ صرف اللہ کا ہے اور وں کا نہیں بلکہ وہ کہتے تھے اللہ کا بھی ہے اور دوسروں کا بھی، دو سرے اس لیے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ اکیلا یہ کام نہیں کرتا بلکہ ہمارے بتوں کی مدد سے کرتا ہے۔ خود مجبور ہے اسی لیے ان دونوں عقیدوں کی تردید کے لیے حسب ذیل آیات ہیں:
# وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیۡ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪﴿111﴾٪
 
'''اور فرماؤ کہ سب خوبیاں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے لیے اولاد نہ بنائی او رنہ اس کے ملک میں کوئی شریک ہے او رنہ کوئی کمزوری کی وجہ سے ا س کا ولی مدد گار ہے تو اس کی بڑائی بولو ۔'''<ref>(پ15،بنیۤ اسرآء یل:111)</ref>
 
اگر یہ مشرکین ملک اور قبضہ میں خدا کے سوا کسی کوشریک نہیں مانتے تھے تو یہ تردید کس کی ہو رہی ہے او رکس سے یہ کلام ہو رہاہے ۔
# تَاللہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾اِذْ﴿ۙ97﴾اِذْ نُسَوِّیۡکُمۡ بِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۸﴾﴿98﴾
 
'''دوزخ میں مشرکین اپنے بتوں سے کہیں گے اللہ کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ کیونکہ ہم تم کو رب العالمین کے برابر سمجھتے تھے۔'''<ref>(پ19،الشعرآء:97۔98)</ref>
 
یہ مشرک مسلمانوں کی طر ح اللہ تعالیٰ کو ہر شے کا خالق، مالک بلا شرکت غیر کے مانتے تھے تو برابر ی کرنے کے کیا معنی ہیں ،فرماتا ہے:
# اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ نَصْرَ اَنۡفُسِہِمْ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصْحَبُوۡنَ ﴿۴۳﴾﴿43﴾
 
'''کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو ان کو ہم سے بچاتے ہیں وہ اپنی جانوں کو نہیں بچاسکتے اور نہ ہماری طر ف سے ان کی کوئی یاری ہو۔'''<ref>(پ17،الانبیآء:43)</ref>
 
اس آیت میں مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید کی ہے کہ ہمارے معبود ہمیں خدا سے مقابلہ کر کے بچاسکتے ہیں :
# اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوۡا لَا یَمْلِکُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾قُلۡ﴿43﴾قُلۡ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا ؕ
 
'''بلکہ انہوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں فرماد و کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو ساری شفاعتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔'''<ref>(پ 24الزمر:43،44)</ref>
سطر 206:
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب کا شرک ایک ہی طرح کا نہ تھا بلکہ اس کی پانچ صورتیں تھیں:
 
'''(۱1)خالق کا انکار اور زمانہ کو مؤثر ماننا (۲2) چند مستقل خالق ماننا (۳3) اللہ کو ایک مان کر اس کی اولاد ماننا (۴4) اللہ کو ایک مان کر اسے تھکن کی وجہ سے معطل ماننا (۵5) اللہ کو خالق و مالک مان کر اسے دوسرے کا محتاج ماننا ،جیسے اسمبلی کے ارکان، شاہان موجودہ کے لیے اور انہیں ملکیت اور خدائی میں دخیل ماننا ۔''' ان پانچ کے سوا اور چھٹی قسم کا شر ک ثابت نہیں۔
 
ان پانچ قسم کے مشرکین کے لیے پانچ ہی قسم کی تردید یں قرآن میں آئی ہیں جن پانچوں کا ذکر سورہ اخلاص میں اس طر ح ہے کہ قُلْ ھُوَاللہُ میں دہر یوں کا رد کہ اللہ عالم کا خالق ہے۔ اَحَدٌ میں ان مشرکوں کا رد جو عالم کے دوخالق مستقل مانتے تھے تا کہ عالم کا کام چلے۔ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ میں ان مشرکین کا رد جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام وحضرت عزیر علیہ السلام کو رب تعالیٰ کا بیٹا یا فرشتوں کو رب تعالیٰ کی بیٹیاں مانتے تھے۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ، کُفُوًا اَحَدٌ میں ان لوگو ں کا رد جو خالق کو تھکاہوا مان کر مدبر عالم اوروں کو مانتے تھے ۔
 
'''(۱1) اعتراض:''' مشرکین عرب بھی اپنے بتو ں کو خدا کے ہاں سفارشی اور خدا رسی کا وسیلہ مانتے تھے اور مسلمان بھی نبیوں، ولیوں کو شفیع اوروسیلہ مانتے ہیں تو وہ کیوں مشرک ہو گئے اور یہ کیوں مومن رہے؟ ان دونوں میں کیا فر ق ہے؟
 
'''جواب :''' دو طر ح فرق ہے کہ مشرکین خدا کے دشمنوں یعنی بتو ں وغیرہ کو سفارشی اور وسیلہ سمجھتے تھے جو واقعہ میں ایسے نہ تھے اور مومنین اللہ کے محبو بوں کو شفیع او روسیلہ سمجھتے ہیں لہٰذا وہ کافر ہوئے اور یہ مومن رہے جیسے گنگاکے پانی اور بت کے پتھر کی تعظیم، ہولی، دیوالی، بنارس، کاشی کی تعظیم شرک ہے مگرآب زمزم، مقام ابراہیم، رمضان، محرم، مکہ معظمہ، مدینہ طیبہ کی تعظیم ایمان ہے۔ حالانکہ زمزم اور گنگا جل دو نوں پانی ہیں۔ مقام ابراہیم اور سنگ اسود۔ اور بت کا پتھر دونوں پتھر ہیں وغیرہ وغیرہ، دوسرے یہ کہ وہ اپنے معبودوں کو خدا کے مقابل دھونس کا شفیع مانتے تھے اور جبری وسیلہ مانتے تھے، مومن انبیا علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم کو محض بندہ محض اعزازی طور پر خدا کے اذن وعطا سے شفیع یا وسیلہ مانتے ہیں۔ اذن اور مقابلہ ایمان وکفر کا معیا ر ہے ۔
 
'''(۲2)اعتراض :''' مشرکین عر ب کا شرک صرف اس لیے تھا کہ وہ مخلوق کو فریاد رس، مشکل کشا، شفیع، حاجت روا،دور سے پکار سننے والا، عالم غیب،وسیلہ مانتے تھے وہ اپنے بتوں کو خالق، مالک، رازق، قابض موت وحیات بخشنے والا نہیں مانتے تھے۔ اللہ کا بندہ مان کر یہ پانچ باتیں ان میں ثابت کرتے تھے قرآن کے فتوے سے وہ مشرک ہوئے۔ لہٰذاموجودہ مسلمان جو نبیوں علیہم السلام، ولیوں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے لیے یہ مذکورہ بالا چیزیں ثابت کرتے ہیں وہ انہیں کی طر ح مشرک ہیں اگر چہ انہیں خدا کا بندہ مان کر ہی کریں چونکہ یہ کام مافوق الاسباب مخلوق کے لیے ثابت کرتے تھے ،مشرک ہوئے۔
 
'''جواب :''' یہ محض غلط اور قرآن کریم پر افترا ہے۔ جب تک رب تعالیٰ کے ساتھ بندے کو برابر نہ مانا جاوے، شرک نہیں ہو سکتا۔ وہ بتوں کو رب تعالیٰ کے مقابل ان صفتوں سے موصوف کرتے تھے۔ مومن رب تعالیٰ کے اذن سے انہیں محض اللہ کا بندہ جان کر مانتا ہے لہٰذا وہ مومن ہے۔ ان اللہ کے بندوں کے لیے یہ صفات قرآن کریم سے ثابت ہیں ،قرآنی آیات ملاحظہ ہوں۔
سطر 235:
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات|2}}
<references />
 
{{اسماء وشخصیات قرآن}}
 
[[زمرہ:اسلامی اخلاقیات]]
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]
[[زمرہ:اسلامی الٰہیات]]
[[زمرہ:اللہ]]
[[زمرہ:اسلامی اخلاقیات]]
[[زمرہ:گناہ]]
[[زمرہ:کثرت پرستی]]
[[زمرہ:گناہ]]
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/شرک»