"غزوہ بدر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 9:
| combatant1= [[مدینہ منورہ]] کے مسلمان
| combatant2=[[قریش (قبیلہ)|قریش]] [[مکہ]]
| commander1=[[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]]<br />[[ابوبکر صدیق]]<br />[[عمر بن خطاب]]<br />[[حمزہ بن عبد المطلب]]<br />[[علی بن ابی طالب]]
| commander2=[[ابوجہل]] [[لڑائی میں مقتول|t]]<br />[[عتبہ بن ربیعہ]] [[لڑائی میں مقتول|t]]<br />[[امیہ بن خلف]] [[لڑائی میں مقتول|t]]<br />[[ہند بنت عتبہ]]
| strength1=313 پیادہ فوج اور گھوڑسوار فوج: 2 گھوڑے اور 70 اونٹ
| strength2= 950 پیادہ فوج اور گھوڑسوار فوج: 100 گھوڑے اور 170 اونٹ
سطر 21:
 
== اسباب ==
[[ملففائل:Badr battlefield.jpg|300px|تصغیر|وہ میدان جہاں پر رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں نے کفار کو شکست دی]]
 
=== قریش کی اسلام دشمنی ===
سطر 55:
== واقعات ==
 
[[ملففائل:Badr Campaign.GIF|thumbتصغیر|بدر کی مہم کا نقشہ]]
 
[[مدینہ منورہ|مدینہ]] میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔ مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ غالباًًغالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ:
 
{{اقتباس|یا [[رسول اللہ]]! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا [[رسول اللہ]] جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو معبوث کیا اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا۔}}
سطر 69:
رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری اور قادر مطلق نے فتح کی بشارت دے دی جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتی تھی۔ لیکن خداوند تعالٰی نے باران رحمت سے مسلمانوں کی یہ دونوں دقتیں دور کر دیں۔ ریت جم گئی اور قریشی لشکر کے پڑاؤ والی مقبوضہ چکنی مٹی کی زمین پر کیچڑ پیدا ہو گیا۔
 
[[ملففائل:The Message – Meccan Army.jpg|thumbتصغیر|فلم دی میسیج کا منظر، لشکر{{زیر}} کفار میدان میں آرہا ہے]]
 
17 [[رمضان المبارک]] [[2ھ]] ([[17 مارچ]] [[624ء]]) کو فجر کے بعد آنحضرت {{درود}} نے جہاد کی تلقین کی۔ آنحضرت {{درود}} کے ارشاد کے مطابق انہوں نے صف بندی کی اور آہن پوش لشکر کو شکست دینے کا آہنی عزم لے کر میدان کی طرف چلے۔ قریشی لشکر تکبر و غرور میں بدمست نسلی تفاخر کے نعرے لگاتا ہوا سامنے موجود تھا۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔ ابوبکر اپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور حذیفہ کو اپنے بات عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔ عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مدمقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمر کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مبارز طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ میدان میں نکلے لیکن ان تینوں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمد{{درود}} ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پر [[حمزہ بن عبدالمطلب|حضرت حمزہ]]، [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] اور [[حضرت عبیدہ]] مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ’’ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو‘‘مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علی نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضرت عبید ہ نے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔ [[علی بن ابی طالب|حضرت علی]] اپنے مدمقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبید ہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔
 
اس غزوہ میں مومنین کے جوش [[جہاد]] کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی [[عمر بن جام]] کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضور اکرم کا اعلان ’’آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ’’واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔‘‘ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ میدان کارزار خوب گرم تھا قریش کے مغرور آہن پوش لوہے کے لباس سمیت کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ مسلمان بھی خود داد شجاعت دے رہے تھے۔ اس ہنگامے میں [[انصار]] کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمر بن جموع اور [[معاذ بن عفر]]، حضرت [[عبدالرحمن بن عوف]] کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا۔
سطر 77:
’’چچا! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ {{درود}} کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں‘‘ اتفاق سے ابوجہل کا گزر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز لٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انہوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور عبد اللہ بن مسعود نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
 
اس میدان بدر میں ابوجہل کے علاوہ امیہ بن خلف جس نے حضرت بلال پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے اور ابوبختری جیسے اہم سرداران قریش بھی مارے گئے۔ اور یہ مغرور لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اللہ تعالٰی نے اسلام کو فتح دی تھی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ فتح و شکست میں مادی قوت سے زیادہ روحانی قوت کا دخل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کل 14 آدمی شہید ہوئے۔ اس کے مقابلے میں قریش کے 70 آدمی مارے گئے جن میں سے 36 حضرت [[علی بن ابی طالب|علی]] کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ 70 سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ قریشی مقتولین میں ان کے تقریباًًتقریباً تمام نامور سردار شامل تھے اور گرفتار ہونے والے بھی ان کے معززین میں سے تھے۔ مثلاً حضرت عباس بن عبد المطلب ’’حضور کے چچا‘‘ عقیل بن ابی طالب، اسود بن عامر، سہیل بن عمرو اور عبد اللہ بن زمعہ وغیرہ۔
 
== اسیران جنگ کے ساتھ سلوک ==
 
[[ملففائل:Badr battlefield.jpg|thumbتصغیر|میدان بدر کا حالیہ منظر]]
 
آنحضرت نے اسیران جنگ کا صحابہ میں تقسیم کرکے انہیں آرام سے رکھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے اپنے قائد کے فرمان پر اس حد تک عمل کیا کہ خود کھجوریں کھا کر قیدیوں کو کھانا کھلایا۔ صحابہ کرام سے ان کے بارے میں مشورہ طلب کیا گیا تو [[عمر ابن الخطاب|حضرت عمر فاروق]] نے انہیں قتل کر کے دشمن کی قوت توڑنے کی تجویز پیش کی [[عبداللہ ابن ابی قحافہ|حضرت ابوبکر]] نے [[فدیہ]] لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ آنحضرت نے حضرت ابوبکر سے اتفاق کرتے ہوئے اسیران جنگ کو [[فدیہ]] لے کر چھوڑ دیا جو قیدی غربت کی وجہ سے فدیہ ادا نہیں کر سکتے تھے اور پڑھے لکھے تھے انہیں دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوص رہا کر دیا گیا۔ یہ قیدی حسن سلوک سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت سے مشرف بہ اسلام ہوئے جن میں عباس بن عبد المطلب اور عقیل بن ابوطالب شامل تھے۔
سطر 161:
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
{{عہد نبوی کی جنگیں}}
{{اصحاب بدر|}}
{{پہلی صدی ہجری میں جنگیں|}}
{{Authority control}}
{{اسماء وشخصیات قرآن}}
 
[[زمرہ:غزوہ بدر]]
{{اسماء وشخصیات قرآن}}
[[زمرہ:ظہورات ملائکہ]]
[[زمرہ:624ء]]
[[زمرہ:اسلامی فتوحات]]
[[زمرہ:ایشیا میں 624ء]]
[[زمرہ:تاریخ عرب]]
[[زمرہ:رمضان کے مہینے میں ہونے والی مسلمانوں کی جنگیں]]
[[زمرہ:غزوات]]
[[زمرہ:اسلامیظہورات فتوحاتملائکہ]]
[[زمرہ:2ھ]]
[[زمرہ:رمضان کے مہینے میں ہونے والی مسلمانوں کی جنگیں]]
[[زمرہ:غزوہ بدر]]
[[زمرہ:624ء]]