"غزوہ طائف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 7:
|مقام= [[طائف]]
|خطۂ_اراضی=
|نتیجہ= [[مسلمان]] فتح<br /> (سردارِ اہل طائف نے صلح کی درخواست اور محمدﷺ نے قبول کیا )
|متحارب1= مسلمان
|متحارب2= اہلِ [[طائف]]
سطر 26:
حنین سے بھاگنے والی کفار کی فوجیں کچھ تو اوطاس میں جا کر ٹھہری تھیں اور کچھ طائف کے قلعہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اوطاس کی فوجیں شکست کھا کر ہتھیار ڈال دینے پر مجبورہو گئیں اور سب گرفتار ہو گئیں۔ لیکن طائف میں پناہ لینے والوں سے بھی جنگ ضروری تھی۔ اس لیے حضور ﷺ نے حنین اور اوطاس کے اموال غنیمت اور قیدیوں کو ''مقام جعرانہ'' میں جمع کرکے طائف کا رخ فرمایا۔
== طائف کا محل وقوع ==
[[طائف]] خود ایک بہت ہی محفوظ شہر تھا جس کے چاروں طرف شہر پناہ کی دیوار بنی ہوئی تھی اوریہاں ایک بہت ہی مضبوط قلعہ بھی تھا۔ یہاں کا رئیس اعظم عروہ بن مسعود ثقفی تھا جو [[ابو سفیان]] کا داماد تھا۔ یہاں [[بنو ثقیف]] کا جو خاندان آباد تھا وہ عزت و شرافت میں [[قریش]] کا ہم پلہ شمار کیا جاتا تھا۔ کفار کی تمام فوجیں سال بھر کا راشن لے کر [[طائف]] کے قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔
 
== محاصرہ طائف ==
اسلامی افواج نے طائف پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا مگر قلعہ کے اندر سے کفار نے اس زور و شور کے ساتھ تیروں کی بارش شروع کر دی کہ لشکر اسلام اس کی تاب نہ لا سکا اور مجبوراً اس کو پسپا ہونا پڑا۔ 18 دن تک شہر کا محاصرہ جاری رہا مگر طائف فتح نہیں ہو سکا۔ حضور ﷺ نے جب جنگ کے ماہروں سے مشورہ فرمایا تونوفل بن معاویہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! ''لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی لیکن اگر چھوڑ دی جائے تو بھی اس سے کوئی اندیشہ نہیں ۔'' یہ سن کر حضور ﷺ نے محاصرہ اٹھا لینے کا حکم دے دیا۔<ref>زرقانی ج3 ص33</ref>
<ref>زرقانی ج3 ص33</ref>
طائف کے محاصرہ میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے اورکل بارہ اصحاب شہید ہوئے سات قریش،چار انصار اور ایک شخص بنی لیث کے۔ زخمیوں میں [[ابوبکر صدیق]] کے صاحبزادے عبد اﷲ بن ابوبکربھی تھے یہ ایک تیر سے زخمی ہو گئے تھے۔ پھر اچھے بھی ہو گئے، لیکن ایک مدت کے بعد پھر ان کا زخم پھٹ گیا اور اپنے والد [[ابوبکر صدیق]] کے دور خلافت میں اِسی زخم سے ان کی وفات ہو گئی۔<ref>زرقانی ج3ص30</ref>
محمدﷺ نے اعلان کیا کہ جو غلام قلعے سے اتر کر ہمارے پاس آجائے وہ آزاد ہے۔ اس اعلان پر 23 غلام اتر آئے ان میں ابوبکرہؓ بھی تھے،وہ قلعے کے دیواروں پر چڑھ چڑھ کر ایک چرخی کی مدد سے جس سے رہٹ سے پانی نکالا جاتا ہے سے لٹک کر نیچے آ گئے۔ اس لیے محمدﷺ نے ان کا کنیت ابوبکرؓ رکھا۔[[عربی زبان]] میں چرخی (جس سے بانی نکالا جاتا ہے) کو بکرہ یا بکر کہا جاتاہے۔
سطر 41 ⟵ 40:
آپ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صرد چند معززین کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیران جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مؤثر تقریر کی،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
{{اقتباس|اے محمد!ﷺآپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حلیمہ کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔}} زہیر کی تقریر سن کر حضور ﷺبہت زیادہ متاثر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت زیادہ انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بہت زیادہ دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں۔ میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نماز ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضور ﷺ نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیران جنگ کی رہائی ہو گئی۔<ref>سیرتِ ابن ہشام ج4 ص488تا48</ref>
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
{{محمد2}}
 
[[زمرہ:ایشیا میں 630ء]]
[[زمرہ:630ء کی دہائی کے تنازعات]]
[[زمرہ:ایشیا میں 630ء]]
[[زمرہ:خالد بن ولید کی جنگیں]]
[[زمرہ:محاصرے]]
[[زمرہ:غزوات]]
[[زمرہ:630ءمحاصرے]]