"لوط (اسلام)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 28:
حضرت لوط علیہ السلام کا شہر ''سَدُوم''(قرآن الحاقۃ:9 میں اسے اُلٹ پلٹ ہوجانے والا شہر کہا گیا)ہے۔ جو ملک شام میں صوبہ ''حِمْصْ'' کا ایک مشہور شہر ہے۔
 
== حالات زندگی ==
حضرت لوط علیہ السلام بن ہاران بن تارخ، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔ یہ لوگ عراق میں شہر ''بابل'' کے باشندہ تھے پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں سے ہجرت کر کے ''[[فلسطین]]'' تشریف لے گئے اور حضرت لوط علیہ السلام ملک شام کے ایک شہر '''اُردن''' میں مقیم ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرما کر ''سدوم'' والوں کی ہدایت کے لیے بھیج دیا۔
مدائن صالح اوتھی[[دمشق]] کے درمیان بحیرہ لوط جو سی سالٹ کہلاتی ہے اس کے نزدیک آپ کی قوم آباد تھی .
سطر 35:
{{main|آل لوط}}
'''آل لوط''' سے لوط علیہ السلام اور ان کے پیروکار مراد ہیں۔ یہ [[قرآن]] میں چار مرتبہ آیا ہے۔
* {{قرآن-سورہ 15 آیت 59}}
* {{قرآن-سورہ 15 آیت 61}}
* {{قرآن-سورہ 27 آیت 56}}
* {{قرآن-سورہ 54 آیت 34}}
 
آل لوط سے مراد خود حضرت لوط علیہ الصلا ۃ و السلام اور ان پر ایمان لانے والے لوگ ہیں جن میں حضرت لوط علیہ الصلاۃ و السلام کی بیوی شامل نہیں، کیونکہ وہ مومنہ نہیں تھی، البتہ لوط علیہ الصلاۃ و السلام کی دوبیٹیاں ان کے ساتھ جن کو نجات دی گئی۔<ref>تفسیر جلالین جلال الدین سیوطی سورہ القمر آیت33</ref><br />
آل لوط سے یہاں پر مراد حضرت لوط کی صرف صلبی اولاد نہیں بلکہ آپ کی معنوی اولاد بھی اس میں داخل ہے، یعنی آپ کے اتباع اور پیروکار کہ ان سب ہی کو اس نجات سے سرفراز فرمایا گیا<ref>تفسیر مدنی مولانا اسحاق مدنی سورۃ القمر</ref><br />
آل لوط سے مراد ان پر ایمان لانے والے تھے، اسی لیے لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے بارے میں فورًا ہی کہا گیا کہ وہ کافروں کے ساتھ رہ جائے گی اور ضرور ہلاک کی جائے گی، اس لیے کہ وہ ایمان نہیں لائی تھی۔<ref>تفسیر تیسیر الرحمن لبیان القرآن ،محمد لقمان سلفی،سورۃ الحجر57</ref>
 
== قوم لوط ==
{{main|قوم لوط}}
آپ كى قوم نہایت مغرور، بے حس اور نافرمان تھى.اور ان كا سب سے بڑا گناہ یہ تھا كہ ان ميں مرد عورتوں كى بجائے مرد سے ہى اپنى جسمانى حاجت پورى كرتے زیادتی کرتے
شہر سدوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سرسبز و شاداب تھیں اور وہاں طرح طرح کے اناج اور قسم قسم کے پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے۔ شہر کی خوشحالی کی وجہ سے اکثر جابجا کے لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آیا کرتے تھے اور شہر کے لوگوں کو ان مہمانوں کی مہمان نوازی کا بار اٹھانا پڑتا تھا۔ اس لیے اس شہر کے لوگ مہمانوں کی آمد سے بہت ہی کبیدہ خاطر اور تنگ ہوچکے تھے۔ مگر مہمانوں کو روکنے اور بھگانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس ماحول میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا۔ اور ان لوگوں سے کہنے لگا کہ اگر تم لوگ مہمانوں کی آمد سے نجات چاہتے ہو تو اس کی یہ تدبیر ہے کہ جب بھی کوئی مہمان تمہاری بستی میں آئے تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ بدفعلی کرو۔ چنانچہ '''سب سے پہلے ابلیس خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں مہمان بن کر اس بستی میں داخل ہوا۔ اور ان لوگوں سے خوب بدفعلی کرائی''' اس طرح یہ فعلِ بد ان لوگوں نے شیطان سے سیکھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرنے لگے اورزیادتی کرنے ظل۔
دوسرے پہ حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے اس طرح وعظ فرمایا کہ:۔<br />
{{تصویری قرآن|7|80}}<br />
{{تصویری قرآن|7|81}}<br />
اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔
حضرت لوط علیہ السلام کے اس اصلاحی اور مصلحانہ وعظ کو سن کر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ کیا کہا؟
{{تصویری قرآن|27|56}}<br />
اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔
 
سطر 59:
قوم لوط کا وہی علاقہ ہے جسے آج ہم بحرمیت یا [[بحیرہ مردار]] کہتے ہیں۔ یہ بحیرہ سمندر سے بھی زیادہ گہرائی میں ہے۔ چنانچہ اس میں پانی باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس بحیرہ میں مچھلی، مینڈک، کیڑا غرض کہ کوئی جاندار زندہ نہیں وہ سکتا۔ قوم لوط کا صدر مقام [[سدوم]] تھا۔ جو آج کل اسی بحیرہ میں غرق ہے۔ مگر کبھی یہ علاقہ بڑا سر سبز و شاداب تھا، غلوں اور پھلوں کی کثرت تھی یہاں کم ازکم پانچ خوبصورت بڑے شہر تھے جن کے مجموعہ کو قرآن کریم نے ” مؤتفکہ “ اور مؤتفکات، کے الفاظ سے بیان کاو ہے۔ نعمتوں کی فراوانی اور دولت کی ریل پیل نے یہاں کی قوم کو سرکش بنا دی تھا۔ اس قوم کی اصلاح کے لیے حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔<ref>تفسیر بصیرت قرآن ،مولانا محمد آصف قاسمی،الاعراف 80</ref>
 
== قوم لوط پر عذاب ==
جب قوم لوط کی سرکشی اور بدفعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سے اتر پڑے۔ پھر یہ فرشتے مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور یہ سب فرشتے بہت ہی حسین اور خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ ان مہمانوں کے حسن و جمال کو دیکھ کر اور قوم کی بدکاری کا خیال کر کے حضرت لوط علیہ السلام بہت فکرمند ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادہ سے دیوار پر چڑھنے لگے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھانا اور اس برے کام سے منع کرنا شروع کر دیا۔ مگر یہ بدفعل اور سرکش قوم اپنے بے ہودہ جواب اور برے اقدام سے باز نہ آئی۔ تو آپ اپنی تنہائی اور مہمانوں کے سامنے رسوائی سے تنگ دل ہوکر غمگین و رنجیدہ ہو گئے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی آپ بالکل کوئی فکر نہ کریں۔ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو ان بدکاروں پر عذاب لے کر اترے ہیں۔ لہٰذا آپ مومنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔ چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مومنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر نکل گئے۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چور ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔ پھر کنکر کے پتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگ باری ہو ئی کہ قوم لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئیں۔ عین اس وقت جب کہ یہ شہر الٹ پلٹ ہو رہا تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ''واعلہ'' تھا جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور یہ کہا کہ ''ہائے رے میری قوم''یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔
{{تصویری قرآن|7|83}}<br />
{{تصویری قرآن|7|84}}<br />
تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے اُن پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔
جو پتھر اس قوم پر برسائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے۔ اور ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔
 
== شجرہ نسب ==
{| class="wikitable"
|-
سطر 75:
| اسماعیل و اسحاق || لوط
|}
== قوم کی لاشیں ==
[[ملففائل:لوط کی قوم.jpg|alt=قوم لوط|تصغیر|حضرت لوط کی قوم کے ایک آدمی کی لاش]]
آپ کی قوم کے اجسام دریائے مردار(the dead sea) میں پائے گئے تھے۔ اس دریا کی خاصیت تھی کہ اس میں نمک کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اگر کوئی بھاری آدمی اس پر لیٹ جائے تو وہ ڈوبے گا نہیں اور [[فرعون]] بھی اس دریا میں سے ہی پایا گیا تھا۔
 
== روضہ ==
آپ کا روضہ [[اردن]] میں ہے۔
[[ملففائل:لوط کی.jpg|تصغیر|لوط(ع) کا روضہ مبارک]]
 
[[ملففائل:لوط کا.jpg|تصغیر|لوط علیہ السلام کے روضہ کا دروازہ اور اپ کی قبر دروازے میں]]
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
{{اسماء وشخصیات قرآن}}
 
[[زمرہ:لوط]]
[[زمرہ:اسلام میں بائبل کی شخصیات]]
[[زمرہ:اسلام میں انبیاء و رسل]]
[[زمرہ:اسلام میں بائبل کی شخصیات]]
[[زمرہ:لوط]]