"کھوار زبان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 26:
کھوار زبان [[چترال]] میں بولی جانے والی ایک [[ہند-یورپی زبان]] ہے۔ [[چترال]] میں یہ زبان اکثریتی آبادی کی زبان ہے اور اس زبان نے [[چترال]] میں بولی جانے والی دیگر زبانوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ چترال کے اہل قلم نے اس زبان کو بچانے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ [[چترال]] کے تقریباً اسی فیصد افراد کی یہ مادری زبان ہے۔ [[کھوار اکیڈمی]] نے [[چترال]] اور [[شمالی علاقہ جات]] کی جن معدوم ہونے والی زبانوں کو بچانے کے لیے [[یونیسکو]] (UNESCO) سے اپیل کی ہے ان زبانوں میں کھوار ([[چترالی زبان]]) سر فہرست ہے۔ چترالی زبانوں کے فروع کے لیے ادبی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں لیکن حکومتی سطح پر یہ کام سستی کا شکار ہے۔ اور چترالی زبانیں امتیازی سلوک کی زد میں ہیں۔
 
کھوار زبان [[ایرانی زبانیں|ایرانی زبانوں]] کے [[مغربی ایرانی زبانوں کی فہرست|مغربی گروہ]] سے تعلق رکھتی ہے جو [[ہند۔یورپی زبانیں|ہند-یورپی]] زبانوں کی ایک شاخ ہے ۔ہے۔ عالمی سطح یہ ہند یوروپی، ہند ایرانی، ہند آرین، دردی زبان تصور کی جاتی ہے۔ اس زبان پر سب سے پہلے جن لوگوں کے قلم اٹھایا وہ مستشرقین تھے لیکن ان کا سارا کام رومن میں ہے اور ہر ایک کی دسترس سے باہر ہے۔
 
کھوار زبان کو آرنیہ، چھتراری، قشقاری، پتو اور چترالی بھی کہا جاتا ہے اور اس زبان نے سب سے زیادہ اثر [[اردو]] اور [[فارسی زبان]] سے قبول کیا ہے اور اپنا سب سے زیادہ اثر [[کالاشہ]] زبان پر چھوڑا ہے۔
سطر 83:
باچہ خان ہما کلاسیکی شعرا کے متا خرین میں ایک خصوصی اہمیت کے حامل شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں صنائع، بدائع، لطافت اور ظرافت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ وہ عالم باعمل اور صاحب دل بھی تھے۔ شگفتہ مزاجی ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ البتہ آپ ایک مشکل پسند شاعر تھے۔ آپ کے کلام میں عربی اور فارسی الفاظ کا بھاری پن ہے۔ اپنے گاؤں کے ایک مجذوب مجید کا ذکروہ اپنے کلام میں جا بجا کرتے ہیں۔ جس سے تصوف اور سلوک کی منازل کے حصول کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یاد رہے آپ کھوار زبان کے سب سے پہلے صاحب دیوان شاعر بھی ہیں(۱۰۳)۔ ان کے ہاں ایک دو کی بجائے کئی جگہ حمدیہ مضامین ملتے ہیں گو انھوں نے حمد کے عنوان سے کچھ نہیں کہا۔ ان کے دو اشعار کا ترجمہ پیش ہے:۔ اے محبوب تم اپنے حجاب اور پردے کو ہٹا کر کیا کمال کرتے ہو کہ افلاطون جیسا عاقل بھی مجید جیسا فاترالعقل بن جاتا ہے۔ اے محبوب اپنے حسن کی بہار دکھادے جوزندگی کا سر چشمہ ہے۔ اس بہار کی مسکراہٹیں بکھیر کر مجھ جیسے لاکھوں عاقلوں کو مجید جیسا دیوانہ بنا دے۔( ۱۰۴)
 
آپ۱۶ دسمبر ۱۹۸۹ء کو سول ہسپتال دروش میں انتقال کر گئے۔ کلاسیکی دور کے ایک اہم نام امیر گل خان ہیں ان کے کلام میں تصوف اور معرفت کی چاشنی بھر پور طور پر موجود ہے۔ آپ کو چترال میں موسیقی کے حوالے سے خصوصی مقام حاصل ہے۔ آپ جتنے اچھے گیت نگار ہیں اتنے ہی اچھے مو سیقاربھی ہیں۔ آپ نے عشقیہ گانوں کے علاوہ حمد، نعت، مرثیے اور قومی ترانے بھی لکھے (۱۰۵)۔ پروفیسر اسرار الدین کے مطابق آپ پہلے کھوار شاعر ہیں ۔ہیں۔ جنہو ں نے باقاعدہ طور پر حمد لکھی۔ ان کا ایک حمدیہ بند حا ضر ہے جو صوفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ[L: 58]خداتعالی طرح طرح سے اپنا جلوہ ظاہر کرتا ہے کہیں صلیب کے اُوپر منصور کی مستی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اور )اس سب کے باوجود(اللہ تعالٰی لا شریک بادشاہ ہے۔ اور اس کی ہستی واحد اور بلند ہے(۱۰۶)۔
 
قدیم دور کے مقابلے میں جدید دور میں کھوار ادب میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔ قدیم ادوار میں حکمرانوں کی زبان کیو ں کہ فارسی رہی ہے۔ اس لیے کھوار ادب بھی ترقی نہیں کر سکامگر قیام پاکستان کے بعد عموماً اور موجودہ دور میں خصوصاً کھوار ادب میں نئے نئے تجربے ہوئے اور شعرا نے دیگر اضاف ادب کے ساتھ ساتھ حمد اور نعت پر بھی توجہ صرف کی۔ کھوار ادب میں نعت تو کافی ملتی ہے البتہ حمد کے حوالے سے یہ ادب اتنا ثروت مند نہیں۔ روایت کے طور پر حمد تقریباًً سارے شعرا کے ہاں ملتی ہے مگر ابتدا میں ہو،یہ ضروری نہیں۔ جدید دور کے شعرا کے ہاں کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام شعری کتب حمد و نعت سے شروع ہوں البتہ بسم اللہ سے دیوان کی ابتدا کرنے کا رجحان قدیم ہے۔ حمد کو صنف شاعری کے طور پر رواج دینے والے شعرا میں قاضی ملغت خان بڑے اہم شاعر ہیں ۔ہیں۔ یہ تورکھو سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کا کلام دستیاب نہیں ہو سکا۔ ان کے بعد بابا فردوسی، باباایوب خان ایوب، ناجی خان ناجی، محمد چنگیز خان طریقی، مولاناپیر محمد چشتی، مولانا نقیب اللہ رازی، گل نواز خان خاکی، اقبال حیات، محمد جاوید حیات، جاوید حیات کاکا خیل، فداالرحمن فدا۔ عبد الولی خان، پروفیسر اسرارالدین، رحمت عزیزچترالی، نورالہادی، عنایت الرحمن پرواز وغیرہ حمد لکھنے والے شعرا میں شامل ہیں۔ مرزا فردوس فردوسی کو سبقت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے مجموعہ کلام میں حمدیہ اشعار شامل کیے ان کے بعد رحمت عزیز چترالی نے اپنے مجموعہ کلام ۔’’گلدستہ رحمت‘‘ میں کئی حمدیں شامل کیں جو ایک نیارجحان ہے۔ ان کی ایک نظم کا ترجمہ پیش ہے جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھی۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ[L: 58]اے اللہ! اے میرے خدایا! یہ زمین بھی تیری ،یہ آسما ں بھی تیرا، یہ پتھر ،یہ مٹی،یہ ریت اور پتے بھی تیرے ۔تیرے۔ یہ پودے ،یہ فصلیں، گاجر اور آلو، سیب، [[خوبانی]] اور [[آرڑو]] کے یہ درخت بھی تیرے ۔تیرے۔ تیری رحمتوں کا شکر میں ادا نہیں کر سکتا)یعنی تیری رحمتیں بے کنار ہیں(میری سانسیں بھی تیری عطا ہیں ۔ہیں۔ میری حرکت اور جان بھی تیری ہے۔ میں گنہگار بندہ ہوں مگر پھر بھی تیری رحمت سے نا اُمید نہیں ہوں۔ تو ہی مجھ جیسے گنہگار پر رحم کر کیونکہ تو رحیم ہے۔ تو غفور بھی ہے، تو غفار بھی ہے۔ اے اللہ سب مسلمانوں کے گناہ معاف فرما کیونکہ یہ سب تیرے ہی بندے ہیں (۱۰۷)۔
 
کھوار ادب میں اب ایک تحریک کی صورت میں حمد نگاری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اور ان تحریک کو فروغ دینے میں جمہور الاسلام، ماہنامہ شندور، ماہنامہ ژھنگ، صدائے چترال، ہندو کش، ھمکلام، بزم کھوار اورچترال وژن پیش پیش ہیں۔ کھوار ادب میں کچھ مجموعہ جات حمد سے خالی بھی دستیاب ہیں اس حوالے سے ذاکر محمد زخمی کے مجموعہ کلام کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس کی ابتدا حمد سے نہیں کی گئی (۱۰۸)کھوار ادب میں بھی حمد سے زیادہ قدیم مناجات ہے گو مناجات بھی حمد کے ذیل میں شامل ہے مگر وہ مناجات بہت کم ہیں جن میں شاعر نے تعریف و توصیف کے بعد دعا مانگی ہے۔ اور تعریف و توصیف اور بڑائی کے بغیر مانگی گئی دعایا مناجات التجا، درخواست، منت اور زاری تو ہو سکتی ہے حمد نہیں۔ کھوار زبان میں ابھی تک کوئی حمدیہ مجمویہ شائع نہیں ہوا مگر چند مجموعے ایسے ہیں جن میں حمد و مناجات کو روایت سے ہٹ کرزیادہ صفحات دیے گئے ہیں ۔ہیں۔ اس حوالے سے رحمت عزیز چترالی کو اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’ گلدستٗہ رحمت ‘‘میں پہلی دفعہ تیرہ حمدویں شامل کیں ان کے بعد پروفیسر اسرارالدین کے مجموعے ’’درون ہنو‘‘کی باری آتی ہے کہ اس میں ۲۹ سے ۶۶ صفحہ تک حمدومناجات کو جگہ دی گئی ہے۔ پروفیسر اسرارالدین کی حمد کا منظوم ترجمہ پیش ہے :۔ اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو لا شریک وحدہ لا الہ الا ھو اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو ارد گرد بھی تو درمیان میں بھی تو ادھر بھی تو ادھر بھی تو غائب بھی تو حاضر بھی تو اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو (۱۰۹) مترجم)رحمت عزیز چترالی
 
موجودہ دور میں تاج محمد فگار، امین چغتائی، ذاکرمحمد زخمی، مولانا نقیب اللہ رازی اور پیر محمد چشتی نے حمد کو اپنے مجموعہ جات میں شامل کیا ہے۔ اب تو اکثر شعرا حمد کو اپنے مجموعے میں اولیت دیتے ہیں ان شعرا میں پروفیسر اسرارالدین، رحمت عزیز چترالی، ناجی خان ناجی، امین چغتائی، پیر محمد چشتی، ولی زار خان ولی، ولی الرحمن ولی اورتاج محمد فگار شامل ہیں۔۱۹۷۸ء میں جب انجمن ترقی کھوارچترال اور 1996میں کھوار اکیڈمی کراچی کا قیام عمل میں آیا تو کھوار ادب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت تک یہ انجمن قابل قدر کام کر چکی ہے۔ اب اس انجمن کے ڈائریکڑ رحمت عزیز چترالی ہیں جو کہ ایک ایثار پسند، ملنساراور علمی کام میں ہر وقت مدد کے لیے تیار رہنے والے شخص ہیں ان کی وجہ سے کھوار ادب میں خاطر خواہ ترقی ہوئی۔ ان کے قلم سے کئی ایک مجموعہ جات چھپ چکے ہیں۔ جبکہ حمدکے حوالے سے ایک نثری کتاب ’’کھوار حمد ونعت کی مختصر تاریخ‘‘اور ایک خاص حمدیہ شعری مجموعہ ’’حمد و ثنائے رب جلیل‘‘ عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہونے والا ہے۔ یہ دونوں کتب بلاشبہ کھوار ادب میں ایک نیا اور صحت مند اضافہ ہونگی اور کھوار حمد و نعت کو اردو ،سندھی اور پنجابی کی صف لا کھڑا کرنے میں معاون ثابت ہو نگی۔ جاوید حیات کاکا خیل جدید دور کے شعرا میں سے ایک اہم شاعر ہیں ان کی ایک حمدیہ نظم پیش ہے ۔ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ترجمعہ[L: 58]اے میرے پروردگار!تو کیڑے مکوڑوں سے لیکر انسانوں تک سب کا رازق ہے تو سب کے لیے رحم کرنے والا ہے تو مہربان ہے۔ اے میرے پاک اللہ صرف ایک لفظ ’’کن‘‘سے تو نے اس حکمت سے بھر پورکائنات کو بنایا۔ تیری قدرت کی کوئی انتہا نہیں )بلکہ وہ لامحدودہے ( تیری قدرت عظیم الشان ہے ،اے میرے پاک اللہ !(۱۱۰)۔ مترجم( رحمت عزیز چترالی)
 
صفدر ساجد اس دور کا شاعر ہے جو حمد و نعت، نظم اور غزل پر یکساں دسترس رکھتا ہے ان کا کلام قلمی صورت میں انجمن ترقی کھوار کی لائبریری میں شائع ہونے کے لیے منتظر ہے وہ اللہ جل شانہ کے حضور یوں عرض گزا رہے:۔ ترجمہ[L: 58]اے میرے خدا! اے میرے پروردگار، تیرا یہ بندا بڑا گنہگار ہے۔ میری زندگی نا فرمانیوں میںگزر رہی ہے، اے اللہ ! تو اس گناہ کے ملبے کو ختم کر کے میرے دل کو صاف کیجییو(۱۱۱)۔ مترجم( رحمت عزیز چترالی)
 
کھوارشعراء کی توجہ حمد و نعت کی طرف مبذول ہو چکی ہے جس کا ثبوت نعتیہ مجموعہ’’ آقائے نا مدار‘‘ ہے جو مولانا محمد نقیب اللہ رازی کا تخلیق کردہ ہے (۱۱۲)جسے کھوار ادب میں ایک خوش آئند اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔ انجمن کھوارچترال کی کوششوں سے ’’ققنوز‘‘ کے نام سے دو شعری انتخاب شائع ہوئے تھے جن میں حمد و نعت کے بھی قابل ذکر نمونے ملتے ہیں۔ بہرحال یہ انتخاب کھوار ادب کا بھرپور اور متوازن منظرنامہ ہے جس میں حمد و نعت کا پہلو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ہے۔ کھوار ایک قدیم زبان ہے مگر اس کی ادبی تاریخ تین سو سال سے زیادہ قدیم نہیں البتہ لوک ادب کی قدامت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھوارلوک ادب زیادہ تر گیتوں پا مشتمل ہے جسے ’’باشونو‘‘کہا جاتا ہے (۵)۔ باشونو کے آگے کئی سابقوں کے ساتھ اہم موقعوں کی مناسبت سے گائے جانے والے گیتوں کو الگ الگ نام دیا جاتا ہے۔ آشور جان بھی اس ادب کی ایک مقبول صنف ہے جو نہ صرف ہردلعزیز ہے بلکہ ہر عمر کے فرد کو کچھ نہ کچھ یاد ہے(۶)۔ کھوار ادب میں ماں سے متعلق تمام گیتوں کو مہرو شونو (۷)کہا جاتاہے اس میں ذیلی طورپر لوری )ہووئینی(شامل ہے جسے مائیں بچوں کو سلانے کے لیے گاتی ہیں۔ اس میں بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور کامیابی کی دعائیں مانگی گئی ہوتی ہیں۔ کھوار لوری میں حمد یہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے:۔ ترجمہ: دم دارستارہ آسمان کی ایک سمت سے چل کے دوسری طرف جائے گا میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا۔ اللہ بہت بڑا ہے اس نے چاند کو پیدا کیا ہے اور ستاروں کو چاند کے ساتھ بطورپہرہ دار بنایا ہے اور چاند کی روشنی ہر جگہ پہنچے گی میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ با لکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا(۸)۔ مثنوی کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی ذخیرہ ہے اس حوالے سے تقریبا سارے رومان مثنوی میں ہیں البتہ حمد کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’’یار من ہمیں‘‘ایک رومان ہے مگر اس کے اشعار میں حمد کا وجود نہیں ملتا البتہ تصوف کی گنجاش ہے۔ کیونکہ رومان یا مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے تو شائد اس رومان کی ابتدا بھی حمد سے ہوئی ہو مگر تمام تمام شعر دستیاب نہیں مختلف محققین نے اس کے مختلف شعر درج کیے ہیں اور ابتدائی اشعار بھی طے نہیں ہو سکے۔ تاج محمد فگار کی ایک حمدیہ مثنوی کے تیرہ میں سے دو شعرپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ اللہیئے کا پورہ کوئی تہ سار غیر مہ حاجتو رحم کو روم کہ ریتاؤ کہ کھنار شیر تہ رحمتو اے مہ غفور الرحیم اوہ بو گنہگار اسوم اگر کہ گنہگار تہ رحمتو امیدوار اسوم (۱۸)
 
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی حاجتیں پوری کرنے والا نہیں اگر وہ رحم کرے تو اس کے لیے رحم کرنا مشکل نہیں۔ تو ایک اللہ ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تیرا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں۔ مترجم (محمد انور چترالی) سی حرفی کو کھوار ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جوہند کو میں ہے البتہ اس کی چند ایک مثالیں ضرور مل جاتی ہیں مگر حمد کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ چاربیتہ کی صنف کھوار ادب میں پشتو ادب سے آئی اور اس نے یہاں خوب ترقی کی۔ اس حوالے سے کھوار میں قابل ذکر کام ہوا ہے۔ رحمت عزیزچترالی ایک چاربیتہ حاض رہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: پرندے تیری حمد و ثنا میں مصروف ہیں اور بلبل بھی ان کا ہمنواہے۔ کانٹے بھی تیری حمدوثنا سے خالی نہیں اور پھول بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ہیں۔ رحمت عزیز تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ معافی کی التجا میں اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی رحمت گل بھی ساتھ ہے (۵۹)۔ مترجم ( رحمت عزیزچترالی)
 
کھوار ادب میں اردو میں مروجہ تمام اضاف ادب موجود ہیں البتہ کھوار گیتوں کی صنف قدیم شاعری میں سب سے نمایاں اور کثرت سے ہے ۔ہے۔ مگر جدید شاعری میں اب نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی اضاف کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے دیکھیں تو کھوار ادب کی معلوم تاریخ کا پہلا شاعر ہی غزل گو ہے اور انکی غزل اس سطع پر تھی جہاں ان کی فارسی شاعری تھی۔ یعنی اتالیق محمد شکور غریب نے اپنے دیوان کے آخر پر جو ’کھوار ادب‘ کا باب شامل کیا ہے اس میں غزل زیادہ ہے ۔ہے۔ وہ نہ صرف فارسی شعری روایت کے اساتذہ میں سے تھے بلکہ فارسی غزل کے نامور شاعر تھے۔ اس لیے جب وہ اپنی مادری زبان کی طرف رجوع ہوئے تو ان کی کھوار غزل میں فارسی غزل کا تمام تجربہ اور فن منتقل ہو گیا۔ مگر پہ کام فارسی زدہ سا لگتا ہے ان کے بعد مولانامحمد سیئر سیئر اور باچہ خان ہما نے غزل کو بلند مقام ہے تجمل شاہ محوی، حبیب اللہ فدا برنسوی، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب ایوب اور عزیرالرحمن بیغش نے کھوار غزل میں انپے قلم کے جوہر دکھائے۔ جدید ادب میں بھی غزل کا جادہ سر چڑھ کر بول رہا ہے البتہ روایتی مضامین کی جگہ جدید مضامین نے لے لی ہے۔ جدید غزل لکھنے والوں میں امین الرحمن چغتائی کا مقام کسی تعارف کا معتاج نہیں۔ انکی غزل میں تنوع،جدت،نازک خیالی،ندرت اور چابک دستی کا حسین امتنراج ہے۔ ذاکر محمد زخمی، پروفسیراسرارلدین، فضل الرحمن بیغش، سعادت حسین مخفی، جمشید حسین مخفی اور محمد چنگیز خان طریقی جدید غزل کے اہم شعراہیں ان کی غزل بلاشبہ اردو اور فارسی غزل کی ہمسری کا دعوی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں بھی غزل کا سفر جاری ہے جس میں بے شمار نئے لکھنے والے اپنا اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں : پروفیسر اسرارالدین،جاوید حیات کا کا خیل، جاوید حیات، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، سبحان عالم سبحان، انورالدین انور، محمد شریف شکیب رب نواز خان نوازاور عطا حسین اظہر شامل ہیں۔ سبحان عالم ساغر کی غزل سے تین حمدیہ اشعارپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ہر دورا،ہر زمانہ جلوہ تہ نمایان شیر طورا، چاہ کنعانہ، جلوہ تہ نمایان شیر گمبو دیو خاموشیہ، ہو رنگو چ ووریا بلبلو ہے ترانہ، جلوہ تہ نمایان شیر زندہ کرے ماریس تو،ماری اجی زندہ کوس بہار اوچے خزاں،جلوہ تہ نمایان شیر(۷۰) ترجمہ: ہر دور میں ہر زمانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے، کوہ طور میں، چاہ کنعان میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ پھول کی خاموشی میں، اس کے رنگ اور خوشبو میں اور بلبل کے ترانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ زندہ کر کے مارے گا بھی تو ہی اور مار کر زندہ بھی تو ہی کرے گا، بہار اور خزاں میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ مترجم ( رحمت عزیز چترالی)
 
کھوار حمد نگاری میں صنفی اشتراک کھوار ایک قدیم زبان ہے مگر اس کی ادبی تاریخ تین سو سال سے زیادہ قدیم نہیں البتہ لوک ادب کی قدامت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھوارلوک ادب زیادہ تر گیتوں پا مشتمل ہے جسے ’’باشونو‘‘کہا جاتا ہے (۳۶)۔ باشونو کو آگے کئی سابقوں کے ساتھاہم موقعوں کی مناسبت سے گائے جانے والے گیتوں کو الگ الگ نام دیا جاتا ہے جن میں آشور جان جیسی مقبول صنف بھی شامل ہے جو نہ صرف ہر لعزیز ہے بلکہ ہر عمر کے فرد کو کچھ نہ کچھ یاد ہے(۳۷)۔ کھوار ادب میں ماں سے متعلق تمام گیتوں کو مہرو شونو (۳۸) کہا جاتاہے اس میں ذیلی طورپر لوری )ہووئینی(شامل ہے جسے مائیں بچوں کو سلانے کے لیے گاتی ہیں۔ اس میں بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور کامیابی کی دعائیں مانگی گئی ہوتی ہیں۔ کھوار لوری میں حمد یہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے:۔ ترجمہ: دم دارستارہ آسمان کی ایک سمت سے چل کے دوسری طرف جائے گا میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا۔ اللہ بہت بڑا ہے اس نے چاند کو پیدا کیا ہے اور ستاروں کو چاند کے ساتھ بطورپہرہ دار بنایا ہے اور چاند کی روشنی ہر جگہ پہنچے گی میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا(۳۹)۔
 
کھوار ادب میں اردو میں مروجہ تمام اضاف ادب موجود ہیں البتہ کھوار گیتوں کی صنف قدیم شاعری میں سب سے نمایاں اور کثرت سے ہے ۔ہے۔ مگر جدید شاعری میں اب نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی اضاف کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے دیکھیں تو کھوار ادب کی معلوم تاریخ کا پہلا شاعر ہی غزل گو ہے اور انکی غزل اس سطع پر تھی جہاں ان کی فارسی شاعری تھی۔ یعنی اتالیق محمد شکور غریب نے اپنے دیوان کے آخر پر جو ’کھوار ادب‘ کا باب شامل کیا ہے اس میں غزل زیادہ ہے ۔ہے۔ وہ نہ صرف فارسی شعری روایت کے اساتذہ میں سے تھے بلکہ فارسی غزل کے نامور شاعر تھے۔ اس لیے جب وہ اپنی مادری زبان کی طرف رجوع ہوئے تو ان کی کھوار غزل میں فارسی غزل کا تمام تجربہ اور فن منتقل ہو گیا۔ مگر پہ کام فارسی زدہ سا لگتا ہے ان کے بعد مولانامحمد سیئر سیئر اور باچہ خان ہما نے غزل کو بلند مقام ہے تجمل شاہ محوی، حبیب اللہ فدا برنسوی، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب ایوب اور عزیرالرحمن بیغش نے کھوار غزل میں انپے قلم کے جوہر دکھائے۔ جدید ادب میں بھی غزل کا جادہ سر چڑھ کر بول رہا ہے البتہ روایتی مضامین کی جگہ جدید مضامین نے لے لی ہے۔ جدید غزل لکھنے والوں میں امین الرحمن چغتائی کا مقام کسی تعارف کا معتاج نہیں۔ انکی غزل میں تنوع،جدت،نازک خیالی،ندرت اور چابک دستی کا حسین امتنراج ہے۔ ذاکر محمد زخمی، پروفسیراسرارلدین، فضل الرحمن بیغش، سعادت حسین مخفی، جمشید حسین مخفی اور محمد چنگیز خان طریقی جدید غزل کے اہم شعراہیں ان کی غزل بلاشبہ اردو اور فارسی غزل کی ہمسری کا دعوی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں بھی غزل کا سفر جاری ہے جس میں بے شمار نئے لکھنے والے اپنا اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں : پروفیسر اسرارالدین،جاوید حیات کا کا خیل، جاوید حیات، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، سبحان عالم سبحان، انورالدین انور، محمد شریف شکیب رب نواز خان نوازاور عطا حسین اظہر شامل ہیں۔ سبحان عالم ساغر کی غزل سے سے ایک حمدپیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: ہر دور میں ہر زمانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے، کوہ طور میں، چاہ کنعان میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ پھول کی خاموشی میں، اس کے رنگ اور خوشبو میں اور بلبل کے ترانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ زندہ کر کے مارے گا بھی تو ہی اور مار کر زندہ بھی تو ہی کرے گا، بہار اور خزاں میں تیرا جلوہ نمایاں ہے(۴۰)۔ مترجم ( رحمت عزیز چترالی)
 
نظم کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی کام ہوا ہے اور اس کام کو نثر سے زیادہ وقیع کہا جا سکتا ہے۔ اس میں اگر غزل کے علاوہ تمام قسم کی شاعری کو شامل کر لیا جائے تو یہ کام قابل فخر ہے۔ اس میدان میں مثنوی کے حوالے سے اتالیق محمد شکور غریب کا نام ابتدائی حوالہ ہے جبکہ مثنوی کی صنف قدیم ہے۔ قطعات کے حوالے سے بھی اتالیق کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مرز امحمدسیئر کو بھی مثنوی اور نظم کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے جبین، آمان، زیارت خان زیرک گل اعظم خان وغیرہ کو گیتوں کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے جدید ادب میں نظم کے حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، گل نواز خاکی ،سلطان علی، صالع نظام، مبارک خان، عبد الولی خان عابد، محمد عرفان عرفان، محمد جناح الدین پروانہ، امتیاز احمد امتیاز، صمصام علی رضا اور سیلم الٰہی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ رحمت عزیز چترالی کی حمدیہ نظم کا ترجمہ پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: اے میرے پرودگار! یہ زمین تیری تخلیق ہے اور آسمان بھی تیری ہی تخلیق ہے۔ یہ چرند،پرند،حیوان اور انسان بھی تیری تخلیق ہیں۔ تمام روحوں کو بھی تو نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہمارے جسموں میں یہ جانیں بھی تیری ہی تخلیق ہیں یہ ناشکرا انسان پھر اس آیت کا مطب نہیں سمجھتا اور تیرا شکر ادا نہیں کرتا کہا’’تم انپے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘(۴۱)مترجم( رحمت عزیز چترالی)
سطر 107:
مثنوی کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی ذخیرہ ہے اس حوالے سے تقریبا سارے رومان مثنوی میں ہیں البتہ حمد کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’’یار من ہمیں‘‘ایک رومان ہے مگر اس کے اشعار میں حمد کا وجود نہیں ملتا البتہ تصوف کی گنجاش ہے۔ کیونکہ رومان یا مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے تو شائد اس رومان کی ابتدا بھی حمد سے ہوئی ہو مگر تمام تمام شعر دستیاب نہیں مختلف محققین نے اس کے مختلف شعر درج کیے ہیں اور ابتدائی اشعار بھی طے نہیں ہو سکے۔ تاج محمد فگار کی ایک مثنوی نما حمد کے تیرہ میں سے دو شعرپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی حاجتیں پوری کرنے والا نہیں اگر وہ رحم کرے تو اس کے لیے رحم کرنا مشکل نہیں۔ تو ایک اللہ ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تیرا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں (۴۲) مترجم (محمد انور چترالی)
 
سی حرفی کو کھوار ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جوہند کو میں ہے البتہ اس کی چند ایک مثالیں ضرور مل جاتی ہیں مگر حمد کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ چاربیتہ کی صنف کھوار ادب میں پشتو ادب سے آئی اور اس نے یہاں خوب ترقی کی۔ اس حوالے سے کھوار میں قابل ذکر کام ہوا ہے۔ رحمت عزیزچترالی ایک چاربیتہ حاض رہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: پرندے تیری حمد و ثنا میں مصروف ہیں اور بلبل بھی ان کا ہمنواہے۔ کانٹے بھی تیری حمدوثنا سے خالی نہیں اور پھول بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ہیں۔ رحمت عزیز تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ معافی کی التجا میں اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی رحمت گل بھی ساتھ ہے (۴۳)۔ مترجم ( رحمت عزیزچترالی)
 
==مزید دیکھیے==