"پلندری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 28:
}}
 
'''پلندری''' ( انگريزی: '''Pallandri''' ) [[پاکستان]] کی ریاست [[آزاد کشمیر]] کا ایک شہر ہے جو [[ضلع سدھنوتی]] کا مر کز مقام، راولپنڈی سے 93کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے سطح سمندر سے ساڈھے چار ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک نہایت پر فضا مقامات ہے۔ موسمی اعتبار سے یہ [[آزادکشمیر]] کا سب سے بہترین مقام ہے کیونکہ یہاں نہ تو بہت بلند مقامات کی طرک شدید سردی ہوتی ہے اور نہ ہی زیریں علاقوں کی طرح گرمیوں میں شدید گرمی، یہاں کا موسم سال کا بیشتر حصہ معتدل رہتا ہے پلندری کی وادی تقریباً چار مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں کے لیے بنیادی سہولیات ریسٹ ہاوس، ہوٹل، ہسپتال وغیرہ موجود ہیں اور دیگر ضروریات بھی دستیاب ہیں شہر کے مشرق میں تاریخی مقام جو رانی بلاس پوری کی باولی کے نام سے مشہور ہیں، فن تعمیر کا شاہکار ہیں محکمہ سیاحت کی عدم توجمی کے باوجود قدیم زمانے کی یہ تاریخی عمارت آج بھی قابل دید ہے پلندری [[راولپنڈی ]][[اسلام آباد]] سے [[آزادکشمیر]] کا قریب ترین مقام ہونے کی وجہ سے سیاحوں ک لیے ایک موزوں مقام ہے۔
[[Fileفائل:Rest House PWD Palandri.jpg|thumbتصغیر|ریسٹ ہاوس پلندری]]
== اہم سڑکیں ==
آزاد پتن پلندری ہجیرہ روڈ، یہ [[ضلع پونچھ]] کی سب سے قدیم سڑک ہے۔ یہ سب سے پہلے 1920میں نکالی گئی۔ راولپنڈی اور گوجر خان سے پونچھ کے درمیان میں پیدل اور اونٹوں پر سفراسی راستے پر کیا جاتا تھا اور سامان پونچھ تک پہنچایا جاتا تھا۔ جنگ آزادی کے دوران میں اس سڑک کو بہت اہمیت حاصل رہی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم [[لیاقت علی خان]] اسی سڑک کے ذریعے تراڑ کھل تک گئے۔ آزاد پتن سے پلندری کا فاصلہ 24کلو میٹر، پلندری سے تراڑ کھل 30کلو میٹر، تراڑ کھل سے ہجیرہ 19کلو میٹر ہے۔
سطر 50:
 
=== بارل ===
[[Fileفائل:Baral Fok.jpg|thumbتصغیر|بارل قلعہ]]
 
پلندری آزاد کشمير سے بارہ ميل جنوب کی طرف دو بڑے نالوں کی درميان اونچی گھاٹی پر ايک عمر رسيدہ اور خستہ حال عمارت جو قلعہ بارل کے نام سے مشہور ہے، زمانے کی مسلسل بے اعتنائيوں کے باوجود اپنی مثال آپ ہے۔ يہ عمارت تقريبا” پونے دو سو سال قبل تعمیر ہوئی- تیرھویں صدی میں کشمير پر مسلم سلاطين کی حکومت کا آغاز ہوا اور سو برس تک مغل حاکم رہے۔ ستر برس تک پٹھان اور 1819ء سے 1845 تک سکھوں کا عمل دخل رہا جبکہ 1846 سے 1947 تک ڈوگرہ خاندان نے اس سر زمين پر اپنے ظلم و تشدد کا بازار گرم رکھا۔ ان حکومتوں کے دوران يہاں کے کئی علاقے آزاد رہے جن میں علاقہ پونچھ (سابق) سر فہرست ہے- آزاد قباءل کی زندگی پرسکون، خوشحال اور فارغ البال تھی- یہ لوگ اپنی طرز زندگی کا ايک عميق اور منفرد فلسفہ رکھتے تھے۔ بيرونی تسلط کو کبھی قبول نہ کرتے تھے۔ جب سری سکھ حکمران نے یہ چاہا کہ پوری رياست پر ان کا قبضہ رہے تو انہوں نے يہاں کے آزاد حکمرانوں کی آزادی سلب کرنے کی غرض سے حملہ کر ديا مگر آزاد قبائل نے متحد ہو کر کفر کو پاک سر زمين سے بھاگنے پر مجبور کر ديا ۔
يہ قلعہ جو بارل کے وسط ميں واقع ہے۔ ايک سو برس تک ڈوگراہ بربريت کا مرکذ رہا ہے۔ اس کے مشرق ميں کوہالہ، مغرب ميں اٹکورہ، شمال ميں پلندری اور جنوب ميں سہنسہ و اقع ہيں۔ اس کا سنگ بنياد 1837 ميں مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور ميں رکھا گيا۔ اس کی تعمير ايک آنہ يوميہ کی مزدوری پر عمل ميں آ‎‎ئی۔ اس کے پتھر سہر نالہ (جو ڈيڑھ ميل کی دوری پ رہے) سے لائے گئے۔ عوام علاقہ عمارت کی جائے وقوعہ سے مذکورہ نالے تک ايک لمبی قطار بناتے اور پتھروں کو حرکت ديتے رہتے۔ يہ سلسلہ صبح تا شام جاری رہتا حتی کہ عمارت ميں صرف ہونے والے تمام پتھر اسی طریقہ سے لائے گئے۔ علاوازيں سرخی اور چونا پنيالی(جو پانچ میل کی دوری پر ہے) سے لايا گيا۔
ڈوگرہ سا مراج نے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے اور ہميشہ کے لیے اپنا مطيع و فرماں بردار بنانے کی غرض اس قدر مظالم ڈھا‎‎ئے کے قلعہ کی تعمير کی ابتدا ميں ايک مقامی مسلمان کو قلعے کے بڑے دروازے کے سامنے والے ستون کے نيچے زندہ دفن کر ديا گيا تاکہ لوگ آزادی کی سی انمول نعمت کو ذہن میں نہ لا سکیں
قلعہ کی تعمير ميں جو پتھر استعمال ہوئے ہیں وہ مختلف سا‎‎‎ئيز کے ہيں جن ميں سب سے چھوٹا پتھر “4”7 اور سب سے بڑا “12”7 کا ہے البتہ ايک پتھر کی لمبا‎‎‎‎ئ 96 انچ ہے يہ پتھر بڑے دروازس سے داخل ہوتے ہو‎‎ئے با‎‎‌‌ئيںبا‎‎ئيں طرف کے دروازے ميں نصب ہے قلعے کی اندرونی ديواريں 22‎ انچ چوڑی ہيں جبکہ باہر کی ديوار 38 انچ چوڑی ہے جس ميں چاروں بندوں کوں اور ہلکی توپوں سے فا‎‎ئير کرنے کی جگہيں موجود ہيں۔
قلعے کی تکميل اس کی تاريخ آغاز سے لے کر مسلسل کام کے باوجود 1839 ميں ہو‎ئی۔ ڈوگرا سا مراج کے قدم اکھڑتے ہی وہی قتل گاہ خاص و عام بچوں کی ايک تربيت گاہ ميں بدل گئی۔ 1947 سے 1957 تک اس قلعے سے مڈل سکول کا کام ليا گيا۔ کيونکہ سکول کيلئے کوئی دوسری عمارت موجود نہ تھی۔
يہ عمارت جو آج کل اپنی بے بسی اور کسمپرسی پر سرگر يہ کناں ہے دو ہال اور اٹھارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ اس کے وسط ميں ايک کنواں جو سنتے ہيں کہ بہت گہرا ہوا کرتا تھا، اب مٹی اور پتھروں سے بھر چکا ہے۔ عصر حاضر ميں اس قلعے کے اندر جس کی عمارت تين کنال کے رقبے ميں پھيلی ہوئی ہے۔ شہتوت، ہاڑی، جنگلی اناروں کے علاوہ بے شمار قسم کی خود رو جڑی بوٹياں اگی ہو‏ئیہوئی ہيں۔ کچھ ديواريں حالت رکوع ميں ہيں اور کچھ گريباں چاک ہيں۔ چھت گويا تھی ہی نہيں۔ اے کاش کوئی اس بے چارگی و کسمپرسی پر چارہ گری کا بيڑا اٹھاتا۔ قلعہ بارل آج بھی منتظر ہے کسی ايسی آنکھ کا جس کے دريچے ماضی کی عظمت رفتہ کی ديوار پر کھلتے ہيں۔
 
=== منگ ===
سطر 75:
تعلیم میں پلندری یہاں خواندگی کی شرح کم و بیش 79 فیصد ہے ۔
=== [[کیڈٹ کالج پلندری]] ===
[[Fileفائل:A view of Pallandri city and Cadet Collage Pallandri..jpg|thumbتصغیر|کیڈٹ کالج ،پلندری]]
آزاد کشمیر کا واحد [[کیڈٹ کالج پلندری]] شہر سے تقریباً 2 کلو میٹر کے فاصلے پر کوٹلی روڈ پر واقع ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر سدہنوتی کے عمائدین کا ایک وفد خانصاب کرنل [[خان محمد خان]] کی سرکردگی میں ہندوستان میں انگریز افواج کے کمانڈرانچیف، فیلڈ مارشل آکنیلک سے ملا اور ریاست پونچھ کے فوجیوں کی خدمات اوراس حوالے سے حکومت ہند کی طرف سے کیے گئے اعلانات کے حوالے سے بعض مطالبات میں ایک مطا لبہ یہ بھی تھا کہ سدہنوتی کے مرکزی مقام پلندری میں [[ملٹری کالج جہلم]] کی طرز پرایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے۔ لیکن یہ مطالبے آئینی جدوجہد کا شگار ہوگیے
کرنل ایم نقی خان کی گزارش پر 1974میں وزیر اعظم پاکستان [[ذوالفقار علی بھٹو]] پلندری کے دورہ پر تشریف لائے تو ایک بار بھر یہ مطالبہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ انہوں نے ایک جلسہ عام میں پلندری کے مقام پر کیڈٹ کالج قائم کرنے کااعلان کیا۔ کیڈٹ کالج پلندری کے لیے ابھی ابتدائی امور ہی طے پائے تھے کہ ان کی حکومت ختم ہو گئی اور اس طرح یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس منصوبہ کو تعطل میں رکھنے کی کوشش کی لیکن اس وقت کرنل ایم نقی خان یہاں سے اسمبلی ممبر تھے انہوں نے دفتری امور کے حوالے سے سرگرمی سے کام کیا اور ادارے کے قیام کے سلسلے میں نہایت محنت سے کام کیا دفتری رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھرپور کوششیں کیں اور بالآخر 1990ء میں اس کالج کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیر اعظم آزادکشمیر سردار سکندر حیات خان نے رکھا۔
سطر 81:
 
=== [[خان محمد خان]] گورنمنٹ بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج، پلندری ===
[[Fileفائل:Khan muhammad collage.jpg|thumbتصغیر|خان محمد خان گورنمنٹ بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج، پلندری]]
آزادی کے وقت موجودہ آزادکشمیر میں ایک ہی کالج تھا جو میرپور میں قائم تھا آزادی کے بعد جلد ہی مظفرآباد اور راولاکوٹ میں کالج قائم کیے گیے ان تین کالجوں کے بعد 1962ء میں کوٹلی اور باغ اور پھر پلندری میں کالج قائم ہو 1974ء میں اسے ڈگری کا درجہ دیا گیااور پھر 2010ء میں پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دیا گیا اس نے علاقے میں تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیاآج اس ادارے سے فارغ ہونے والے طلبہ زندگی کے مختلف میدانون، افواج پاکستان، سیاست، معیشت، تعلیم، صحت، انتظامیہ اور دیگر شعبون میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
=== گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، پلندری ===
سطر 89:
{{آزاد کشمیر کے اضلاع}}
 
[[زمرہ:ضلع سدھنوتی کے آباد مقامات]]
[[زمرہ:آزاد کشمیر کے شہر]]
[[زمرہ:ضلع سدھنوتی]]
[[زمرہ:ضلع سدھنوتی کے آباد مقامات]]