"رشید احمد گنگوہی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 21:
 
گرچہ قیامِ دارالعلوم دیوبند میں کوئی فعال کردار آپ کا نہیں ملتا مگر طالب علمی کے زمانے سے ہی حجۃالاسلام محمد قاسم نانوتویؒ سے تعلق رہا۔ اسی وجہ سے مؤرخین کا کہنا ہے کہ ۱۲۸۳ھ مطابق ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم کے قیام سے آپ بے خبر نہیں تھے۔ مدرسہ عربی اسلامی دیوبند کے قیام کے دوسال بعد۱۲۸۵ھ میں دارالعلوم دیوبند سے حضرت گنگوہی کے رسمی تعلق کا سراغ ملتا ہے۔ حجۃالاسلام مولانا محمدقاسم نانوتویؒ بانئ دارالعلوم دیوبند کی وفات کے بعد آپ دارالعلوم دیوبند کے دوسرے سرپرست مقرر ہوئے۔ دارالعلوم کے نصاب کو تیار کرنے میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔اس لئے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ساتھ آپ بھی مسلک دارالعلوم دیوبند کے پیشوا ہیں۔
 
برطانوی سامراج کے خلاف جنگ
۱۸۵۷ء میں خانقاہِ قدوسی سے مردانہ وار نکل کر انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوگئے اور اپنے مرشد حضرت حاجی صاحب اور دوسرے رفقاء کے ساتھ شاملی کے معرکۂ جہاد میں شامل ہوکر خوب داد شجاعت دی۔ جب میدان جنگ میں حافظ ضامن شہید ہوکر گرے تو آپ ان کی نعش اٹھاکر قریب کی مسجد میں لے گئے، اور پاس بیٹھ کر قرآن شریف کی تلاوت شروع کردی۔
 
معرکۂ شاملی کے بعد گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا اور ان کو گرفتار کرکے سہارنپور کی جیل میں بھیج دیا گیا، پھر وہاں سے مظفرنگر منتقل کردیا گیا، چھ مہینے جیل میں گزرے ، وہاں بہت سے قیدی آپ کے معتقد ہوگئے اور جیل خانے میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے لگے۔
 
درسِ حدیث
جیل سے رہائی کے بعد آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا، ۱۲۹۹ھ میں تیسرے حج کے بعد آپ نے یہ التزام کیا کہ ایک سال کے اندر اندر پوری صحاح ستہ کو ختم کرادیتے تھے، معمول یہ تھا کہ صبح سے ۱۲ بجے تک طلباء کو پڑھاتے تھے۔ آپ کے درس کی شہرت سُن سُن کر طالبانِ حدیث دور دور سے آتے تھے، کبھی کبھی ان کی تعداد ستّر اسّی تک پہنچ جاتی تھی، جن میں ہندو بیرونِ ہند کے طلباء بھی شامل ہوتے تھے۔ طلباء کے ساتھ غایت محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔ درس کی تقریر ایسی ہوتی تھی کہ ایک عامی بھی سمجھ لیتا تھا، آپ کے درس حدیث میں ایک خاص خوبی یہ تھی کہ حدیث کے مضمون کو سن کر اس پر عمل کرنے کا شوق پیدا ہوجاتا تھا۔ جامع ترمذی کی درسی تقریر 'الکوکب الدری' کے نام سے شائع ہوچکی ہے، جو مختصر ہونے کے باوجود ترمذی کی نہایت جامع شرح ہے، ۱۳۱۴ھ تک آپ کا درس جاری رہا، تین سو سے زائد حضرات نے آپ سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی ۔ درسِ حدیث میں آپ کے آخری شاگرد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد یحیٰ کاندھلویؒ تھے۔ آخر میں نزول الماء کی بیماری کی وجہ سے درس بند ہوگیا تھامگر ارشادوتلقین اور فتاویٰ کا سلسلہ برابر جاری رہا، ذکراللہ کی تحریص و ترغیب پر بڑی توجہ تھی، جو لوگ خدمت میں حاضر ہوتے، رغبتِ آخرت کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لے کر جاتے، اتباع سنّت کا غایت اہتمام فرماتے تھے۔
 
== حوالہ جات ==