"رشید احمد گنگوہی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 4:
امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ۶/ذی قعدہ ۱۲۴۲ھ کو دوشنبہ کے دن گنگوہ، ضلع سہارنپور، یوپی میں پیدا ہوئے، ان کے والد ماجد مولانا ہدایت احمد اپنے زمانے کے ایک جید دینی عالم تھے، وہ دہلی کے حضرت شاہ غلام علی مجددی دہلویؒ سے مجاز تھے۔
 
حضرت گنگوہیؒ قرآن شریف وطن میں پڑھ کر اپنے ماموں کے پاس کرنال چلے گئے،گئے اور ان سے فارسی کی کتابیں پڑھیں، پھر مولوی محمد بخش رامپوری سے صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۲۶۱ھ میں دہلی پہنچ کر حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، یہیں حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم النانوتوی ؒ سے تعلق قائم ہوا ،ہوا، جو پھر ساری عمر قائم رہا۔ دہلی میں معقولات کی بعض کتابیں مفتی صدرالدین آزردہ سے بھی پڑھیں، آخر میں حضرت شاہ عبد الغنی مجددی ؒ کی خدمت میں رہ کر علم حدیث کی تحصیل کی۔
 
گرچہ قیامِ دارالعلومدار العلوم دیوبند میں کوئی فعال کردار آپ کا نہیں ملتا مگر طالب علمی کے زمانے سے ہی حجۃالاسلام محمد قاسم نانوتویؒ سے تعلق رہا۔ اسی وجہ سے مؤرخین کا کہنا ہے کہ ۱۲۸۳ھ مطابق ۱۸۶۶ء میں دارالعلومدار العلوم کے قیام سے آپ بے خبر نہیں تھے۔ مدرسہ عربی اسلامی دیوبند کے قیام کے دوسال بعد۱۲۸۵ھ میں دارالعلومدار العلوم دیوبند سے حضرت گنگوہی کے رسمی تعلق کا سراغ ملتا ہے۔ حجۃالاسلام مولانا محمدقاسم نانوتویؒ بانئ دارالعلومدار العلوم دیوبند کی وفات کے بعد آپ دارالعلومدار العلوم دیوبند کے دوسرے سرپرست مقرر ہوئے۔ دارالعلومدار العلوم کے نصاب کو تیار کرنے میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔اسہے۔ اس لئےلیے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ساتھ آپ بھی مسلک دارالعلومدار العلوم دیوبند کے پیشوا ہیں۔
 
برطانوی سامراج کے خلاف جنگ
۱۸۵۷ء میں خانقاہِ قدوسی سے مردانہ وار نکل کر انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوگئےہو گئے اور اپنے مرشد حضرت حاجی صاحب اور دوسرے رفقاءرفقا کے ساتھ شاملی کے معرکۂ جہاد میں شامل ہوکر خوب داد شجاعت دی۔ جب میدان جنگ میں حافظ ضامن شہید ہوکر گرے تو آپ ان کی نعش اٹھاکر قریب کی مسجد میں لے گئے،گئے اور پاس بیٹھ کر قرآن شریف کی تلاوت شروع کردی۔
 
معرکۂ شاملی کے بعد گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا اور ان کو گرفتار کرکے سہارنپور کی جیل میں بھیج دیا گیا، پھر وہاں سے مظفرنگر منتقل کردیاکر دیا گیا، چھ مہینے جیل میں گزرے ،گزرے، وہاں بہت سے قیدی آپ کے معتقد ہوگئےہو گئے اور جیل خانے میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے لگے۔
 
درسِ حدیث
جیل سے رہائی کے بعد آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا، ۱۲۹۹ھ میں تیسرے حج کے بعد آپ نے یہ التزام کیا کہ ایک سال کے اندر اندر پوری صحاح ستہ کو ختم کرادیتے تھے، معمول یہ تھا کہ صبح سے ۱۲ بجے تک طلباءطلبہ کو پڑھاتے تھے۔ آپ کے درس کی شہرت سُن سُن کر طالبانِ حدیث دور دور سے آتے تھے، کبھی کبھی ان کی تعداد ستّر اسّی تک پہنچ جاتی تھی، جن میں ہندو بیرونِ ہند کے طلباءطلبہ بھی شامل ہوتے تھے۔ طلباءطلبہ کے ساتھ غایت محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔ درس کی تقریر ایسی ہوتی تھی کہ ایک عامی بھی سمجھ لیتا تھا، آپ کے درس حدیث میں ایک خاص خوبی یہ تھی کہ حدیث کے مضمون کو سن کر اس پر عمل کرنے کا شوق پیدا ہوجاتا تھا۔ جامع ترمذی کی درسی تقریر 'الکوکب الدری' کے نام سے شائع ہوچکی ہے، جو مختصر ہونے کے باوجود ترمذی کی نہایت جامع شرح ہے، ۱۳۱۴ھ تک آپ کا درس جاری رہا، تین سو سے زائد حضرات نے آپ سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی ۔کی۔ درسِ حدیث میں آپ کے آخری شاگرد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد یحیٰ کاندھلویؒ تھے۔ آخر میں نزول الماء کی بیماری کی وجہ سے درس بند ہوگیاہو گیا تھامگر ارشادوتلقین اور فتاویٰ کا سلسلہ برابر جاری رہا، ذکراللہ کی تحریص و ترغیب پر بڑی توجہ تھی، جو لوگ خدمت میں حاضر ہوتے، رغبتِ آخرت کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لے کر جاتے، اتباع سنّت کا غایت اہتمام فرماتے تھے۔
 
حضرت گنگوہی کے سلسلے میں مولانا عبید اللہ سندھی کا بیان
شیخ الاسلام ابو مسعود رشید احمد گنگوہی حضرت ہدایت اللہ انصاری کے فرزند تھے۔ آپ کی پیدائش ۱۲۴۴ھ میں ہوئی، آپ نے مولانا مملوک علی نانوتویؒ، مولانا عبد الغنی دہلوی، مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا امداداللہ مہاجر مکی وغیرہم سے تعلیم حاصل کی۔ سنن ابی داود کاایک بڑا حصہ میں نےالگنے الگ سے آپ سے پڑھی۔ اس سے مجھے بہت بڑا فائدہ حاصل ہوا۔ یہ مولانا رشید احمد گنگوہی کی ہی صحبت کا نتیجہ تھا کہ میں نے ان کے مسلک کو اس طرح اپنالیا کہ ذرا بھی انحراف کا خیا ل تک نہ آیا۔ آپ ہی کے واسطے سے فقہ و حدیث میں ولی اللٰہی معرفت حاصل ہوئی۔ اور آپ ہی کی برکتوں سے علوم فقہ، سلوک و معرفت ،معرفت، عربی اور قرآن و سنت میں اعلی عقلی مباحث اور مبادیات و اصول میں مجھے کافی مہارت حاصل ہوئی، میں نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کو مسلک حنفیت کا پلند پایہ امام اور مجتہد پایا، وہ اپنے استاذ مولانا عبد الغنیؒ کے مکتب فکر پر بہت سختی سے عمل پیرا اور چٹان کی طرح راسخ تھے،تھے اور مسلکِ ولی اللہی میں قریب قریب مولانا محمد اسحاق دہلویؒ جیسے تھے، سنت و بدعت کی حقیقت مجھے آپ کی کتاب براہین قاطعہ سے سمجھ میں آئی، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تصنیف ایضاح الحق کی اعانت میں آپ نے یہ کتاب تصنیف کی،امیر امداداللہ ؒاور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے بعد حضرت مولانا رشید احمدؒ ہی دیوبندی جماعت کے امام ہوئے،تین ہزار سے زائد مشائخ نے آپ سے علم دین حاصل کی،۱۳۲۳ھ میں آپ کی وفات ہے۔
 
دارالعلومدار العلوم کی سر پرستی
۱۲۹۷ھ میں حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی وفات کے بعد دارالعلومدار العلوم دیوبند کے سرپرست ہوئے،مشکل حالات میں دارالعلومدار العلوم کی گتھیوں کو سلجھادینا ان کی ایک بڑی خصوصیت تھی۔ ۱۳۱۴ھ سے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کی سرپرستی بھی قبول فرمالی تھی۔ فقہ اور تصوف میں تقریباً ۱۴ کتابیں تصنیف فرمائیں۔
 
وفات
باختلاف روایت ۸ یا ۹ جمادی الثانی ۱۳۲۳ھ مطابق ۱۹۰۵ء بروز جمعہ اذان جعہ کے بعد ۷۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کے تلامذہ کا ایک وسیع حلقہ ہے، جس میں بڑے بڑے نامور علماءعلما شامل ہیں، اسی طرح آپ کے خلفاء کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ آپ کے تفصیلی حالات تذکرۃ الرشید مصنفہ مولانا عاشق الٰہی میرٹھی میں درج ہیں، یہ کتاب دوجلدوں پر مشتمل ہے۔
 
== حوالہ جات ==