"انسانی ارتقاء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے
سطر 108:
اگر انسان قدیم مانس سے ترقی پا کر بنا ہے تو پھر مانس اور انسان کے درمیان رابطہ کی کڑی کون سی ہے۔۔ وہ کون سی مخلوق تھی جو آدھی مانس آدھی انسان تھی۔ یہ سوال ماہرین کے درمیان خود ساختہ مفروضہ کے طور پر نکلا ہے۔ گویا کوئی ایسی رابطہ کی کڑی ہونا ضروری تھی۔ جہاں آدھا مانس اور آدھا انسان یک جا ہو۔ لیکن دریافت شدہ مجہرات میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ان شرائط کو پورا کرتا ہو۔ لہذا اسے ’ گمشدہ کڑی ‘ کا نام دیاگیا اور کئی ماہرین اس گم شدہ کڑی ڈھوندنے نکلے۔ ان میں ایک جرمن ماہر حیاتیات ارنسٹ ہیکل نے اس کو ایک سائنسی نام پتھے کن تھروپس Pithecanthripus کا نام دیا۔ جس کا مطلب ہے مانس انسان Ape Man۔ [[ہیکل]] کا خیال تھا اس مخلوق کی ہڈیاں جنوبی ایشیا میں مل سکتی ہیں۔
 
[[ہالینڈ]] کا ماہر [[حیاتیات]] ڈُوبوا 1858ء تا 1940ء جس نے [[ایمسٹرڈیم یونیورسٹی]] سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہیں حیاتیات کا لیکچرار ہو گیا۔ ہیکل کے اس خیال سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے مانس انسان کی ہڈیاں دھونڈنے کا تہیہ کر لیا۔ سب سے پہلے اس نے ملازمت ترک کی اور ڈچ آرمی میں بطور سرجن ملازمت اختیار کی اور اپنی تعیناتی ڈچ آرمی کے ان یونٹوں میں کروائی جو جاوا میں مقیم تھیں۔ جاوا میں اس نے مختلف علاقوں میں کھدائیاں کروا کر اس کی تلاش و جستجو شروع کی۔ بعض ماہرین نے اس کی اس کوشش کا مزاق بھی اڑایا کہ وہ چیز کہاں ملے گی جو ہی نہیں، ملے گی کہاں سے؟سے ؟ لیکن وارفتگان جستجو نے آخر دھونڈ ہی لیا۔ ڈوبوا کو [[سماٹرا]] میں تری نیل گاؤں کے قریب کھدائیوں میں مانس انسان کی پتھرائی ہوئی ہڈیاں ملیں۔ ان میں سے ایک ران کی ہڈی، ایک کھوپڑی کا بالائی حصہ، کئی دانت اور ان کی ہڈیوں کے کئی ٹکرے تھے۔ اس کے مغز کا خانہ نیچا، پیشانی پیچھے کو ہٹی ہوئی اور بھوؤں کی ہڈی ابھری ہوئی تھی۔ آنکھوں کے رخنوں کے پیچھے کھوپڑی نمایاں طور پر سکڑی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ڈوبوا کو جو ران کی ہڈی ملی وہ لمبی اور سیدھی تھی۔ بالکل موجودہ انسان جیسی۔ گویا یہ جاندار سیدھا چلتا تھا۔ اس کی دماغ کی گنجائش بھی پرانے بن مانسوں سے زیادہ تھی۔ ڈوبوا نے اسے پچاس فیصد انسان اور پچاس فیصد مانس قرار دیا۔
 
متفرق ماہرین کی آراء اور نت نئی دریافتوں اور تحقیقات سے زیادہ معقول نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مانس انسان جس کی ہڈیاں ڈاکٹر ڈوبوا نے ڈھوندی تھیں۔ ہر گز گمشدہ کڑی نہیں تھی۔ نیز یہ بھی جب کسی نوع میں کیفیتی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو وہاں ترقی کی اتنی بڑی چھلانگ لگتی ہے کہ اسے ارتقا کے ضمن میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ وہ انقلاب ہوتا ہے، کایا پلٹ ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر کوئی گمشدہ کڑی نہیں ہوتی ہے۔ یعنی کوئی گمشدہ کڑی ہونا لازمی نہیں ہوتی ہے۔ لہذا اس مفروضہ کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اگر کل کو دریافت ہو جائے اور سارے شواہد اس کا ساتھ دین تو تسلیم ہو جائے گی۔ قبل از وقت فرض کرنا غیر ضروری ہے۔