"دیوسائی نیشنل پارک" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
||
سطر 19:
بھئیر سر یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے ہے اور دوسرا استور
چیک پوسٹ سے آگے دیوسائی کا اصل حسن آشکار ہو تا ہے۔ سرسبز ڈھلوان اور اور ان کے پس منظر میں، چرتے ہوئے خوبصورت یاک اور لمبے بال والے بکرے بہت خوبصورت نظر آتے ہیں۔ دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں مگر جیسے ہی جیپ ان کے نزدیک پہنچتی ہے یہ اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ دیوسائی چاروں طرف سے چھوٹی چھوٹی برف پوش پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کی چمک سے یہ پہاڑ سونے کے نظر آتے ہیں، مگر یہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ہیں ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی سے یہ محض چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔ پورے دیوسائی میں بلندی کے باعث ایک بھی درخت نہیں ہے اس لیے پرندے اپنا گھونسلا زمین پر ہی بناتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں دیوسائی کا بلند ترین مقام چھچھور پاس آتا ہے چھچھور پاس کی بلندی سے نیچے نظر دوڑائیں تو گھاس کا ایک وسیع میدان نظر آئے گا جس کے بیچوں بیچ ا یک خوبصورت دریا بل کھاتا ہوا گزر رہا ہے اور میدان کے آخر میں سرسبز ڈھلوان اور ڈھلوان کے بعد برف پوش چوٹیاں۔ اس خوبصورت منظر اور میدان کی وسعت شہری سیاح منہ کھولے حیرت سے دیکھتا ہے یہ منظر اس کے لیے قدرت کا ایک تحفہ ہے۔ یہ ایک بہترین کیمپ سائٹ بھی ہے۔ یہاں سے سفر اترائی کا ہے، اترائی کے دوران ہی دور کچھ نیلاہٹ نظر آتی ہے یہ دیوسائی کی واحد جھیل شیوس رہے، 12677 فٹ بلند یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں ایک ہے۔ اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سطح ہمیشہ یکساں رہتی ہے اس مین پانی نا کہیں سے داخل ہوتا ہے نا خارج اس لیے مقامی لوگ اسے اندھی جھیل کہتے ہیں۔ اس جھیل میں ٹراؤٹ اور سنو کارپ مچھلی بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ اس کا ساحل ایک کیمپ سائٹ ہے۔ اسکردو کے باسی چھٹی والے دن بڑی تعداد میں یہاں پکنک منانے آتے ہیں۔ جھیل کا پانی یخ بستہ اور اس قدرشفاف ہے کہ اس کے نیچے موجود رنگ برنگے پتھر اور ٹراؤٹ صاف نظر آتے ہیں اورخوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ جھیل کا پانی جب کناروں سے ٹکراتا ہے توجلترنگ کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز اور منظر سے سیاح مسحور ہوجاتا ہے اور اس کا دل اس منظر کو چھوڑ کر آگے جانے سے انکار کردیتا ہے مگر وہ سیاح ہی نہیں جو کسی ایک مقام پر ٹہر جائے۔ [[اسلام آباد]] سے [[گلگت]] جانے والی فلائٹ سے بھی یہ جھیل نظر آتی ہے۔ مسافروں اور پائلٹ کے مطابق بعض ذاویوں سے یہ جھیل اپنی شفافیت کی وجہ سے بالکل خالی نظر آتی ہے۔ شیوسر جھیل سے کچھ فاصلے پر جیپ کالا پانی نامی دریا کو عبور کرتی ہے۔ دریا کے تہ میں موجود کالے پتھروں کی وجہ سے یہ دریاکالا پانی کہلاتا ہے۔ یہاں جیپ میں موجود لوگ دعا کرتے ہیں کہ دریا عبور کرتے ہوئے جیپ بند نا ہو جائے ورنہ اس یخ بستہ پانی میں اتر کر جیپ کو دھکا لگانے کے تصور سے ہی خون رگوں میں منجمد ہونا شرو ع ہوجاتا ہے۔ عموماً کچھ جدوجہد کے بعد ڈرائیور کی مہارت اور اللہ کی مدد سے جیپ دریا سے نکل جاتی ہے۔ ہماری اگلی منزل بڑا پانی ہے جو دیوسائی کا سب سے بڑا دریا ہے۔ یہی اس کے نام کی وجہ بھی ہے۔ یہاں دیوسائی کا واحد پل بھی ہے۔ یہ پل لوہے کے تاروں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا ہے۔ ہر سال برف باری کے دوران یہ پل ٹوٹ جاتا ہے جسے دوبارہ بنایا جاتا ہے۔ پل عبور کرتے ہی ایک بورڈ نظر آتا ہے
|