"فتح مکہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ویکائی
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
اضافہ حوالہ جات
سطر 1:
'''فتح مکہ''' (جسے '''فتح عظیم''' بھی کہا جاتا ہے)<ref>[[زاد المعاد فی هدی خير العباد]]، [[ابن قیم الجوزیہ]]، مؤسسة الرسالة، بيروت - لبنان، مكتبة المنار الإسلامية، الكويت، الطبعة السابعة والعشرون، 1415هـ/1994م</ref> عہد نبوی کا ایک [[غزوہ]] ہے جو [[20 رمضان]] سنہ [[8 ہجری]] بمطابق [[10 جنوری]] سنہ [[630 عیسوی]] کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت [[مسلمان]]وں کو شہر [[مکہ]] پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو [[خلافت|اسلامی قلمرو]] میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب [[قریش]] مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ [[بنو دئل]] بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے [[بنو خزاعہ]] کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "[[صلح حدیبیہ]]" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں [[محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہونچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ سالار [[خالد بن ولید]] کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے [[عکرمہ بن عمرو|عکرمہ بن ابی جہل]] کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی کام آئے۔
{{حرب
|محاربہ= غزوہ فتح، فتح مکہ
|سلسلۂ_محارب=
|تصویر=
|بیان=
|تاریخ=17رمضان 8ھ (جنوری 630ء)
|مقام= [[مکہ]]
|خطۂ_اراضی=
|نتیجہ= مسلمانوں کی فتح
|متحارب1= مسلمانان{{زیر}} مدینہ
|متحارب2= مشرکینِ مکہ
|متحارب3=
|قائد1= حضرت '''[[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]''' {{درود}}
|قائد2= [[ابو سفیان بن حرب|ابوسفیان]]
|قائد3=
|قوت1=10,000
|قوت2= نامعلوم۔ تمام مشرکینِ مکہ
|قوت3=
|نقصانات1=کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
|نقصانات2= کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
|نقصانات3=
|تذکرہ=
}}
'''فتح مکہ''' (جسے '''فتح عظیم''' بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک [[غزوہ]] ہے جو [[20 رمضان]] سنہ [[8 ہجری]] بمطابق [[10 جنوری]] سنہ [[630 عیسوی]] کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت [[مسلمان]]وں کو شہر [[مکہ]] پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو [[خلافت|اسلامی قلمرو]] میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب [[قریش]] مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ [[بنو دئل]] بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے [[بنو خزاعہ]] کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان ہوا تھا، یہ معاہدہ "[[صلح حدیبیہ]]" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں [[محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہونچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ سالار [[خالد بن ولید]] کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے [[عکرمہ بن ابی جہل]] کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی کام آئے۔
 
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا تو [[کعبہ]] کے پاس آئے اور اس کا طواف کیا۔ اثنائے طواف کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو اپنے پاس موجود تیر سے گراتے اور پڑھتے جاتے: {{اقتباس مضمن|جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا}}<ref name="سورة الإٍسراء - 81">سورة الإٍسراء، الآية: 81</ref> و{{اقتباس مضمن|جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ}}،<ref name="سورة سبأ - 49">سورة سبأ، الآية: 49</ref> "جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا" (ترجمہ: حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے) اور پڑھتے "جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد" (ترجمہ: حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے، نہ دوبارہ کرنے کا)۔ کعبہ میں بتوں کی تصویریں آویزاں اور ان کے مجسمے نصب تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بھی ہٹانے اور توڑنے کا حکم دیا جس کی تعمیل کی گئی، جب نماز کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے [[بلال بنابن رباح]] کو حکم فرمایا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ جائیں اور اذان دیں؛ بلال کعبہ کے اوپر چڑھے اور اذان دی۔
 
فتح مکہ کے بعد ایک کثیر تعداد حلقہ بگوش اسلام ہوئی جن میں سرفہرست سردار قریش و کنانہ [[ابو سفیان بن حرب|ابو سفیان]] اور ان کی بیوی [[ہند بنت عتبہ]] ہیں۔ اسی طرح عکرمہ بن ابو جہل، [[سہیل بن عمرو]]، [[صفوان بن امیہ]] اور ابوبکر صدیق کے والد [[ابو قحافہ]] کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
 
== پس منظر ==