"محفوظ الرحمن نامی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:علما
م خودکار: خودکار درستی املا ← راجا
سطر 38:
''قیام نور العلوم''حضرت مولانا نامیؒ کے والد بزرگوار حضرت مولانا سے بذریعہ ریل روانہ ہوئے ٹرین میں سوار ہونے کے کچھ ہی دیر بعد آپ پر فالج کا اثر ہوا اور گونڈہ پہنچتے پہنچتے وصال ہو گیا۔ وہاں سے آپ کا جسد خاکی بہرائچ واپس لایا گیا، جہاں آپ کے معتقدین، متوسلین کا جم غفیر تھا، مولوی باغ قبرستان میں آپ کی تدفین ہوئی۔
بعدہٗ شہر کی جامع مسجد میں ایصال ثواب کے لیے ایک بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں مولانا مرحوم کے اوصاف حمیدہ اور قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لوگوں کی توجہ حضرت کی یاد میں ایک دینی ادارہ کے قیام کی طرف مبذول کرائی گئی، جو آپ کے مشن کو نہ صرف باقی رکھے، بلکہ مزید استحکام عطا کرے اور مسلمانوں کو ان کی صحیح حیثیت بتائے اور آئندہ نسلوں کو دین وایمان اور صحیح عقیدہ پر قائم رہنے کا سامان مہیا کرے۔ چنانچہ اسی مجمع میں موجود شہر کی ایک موقر شخصیت جناب الحاج خواجہ خلیل احمد شاہ صاحب مرحوم نے ’’قیام مدرسہ‘‘ کی تجویز رکھی جس کی تائید دیگر خواجگان حضرات ومعززین شہر نے پر جوش طریقے پر کی۔ ا س لیے حضرت مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ نے مخلصین ومعززین شہر کی تجویز اور اپنی دیرینہ آرزو وخواہش کے مطابق یکم ذیقعدہ 1349ھ مطابق 29؍ مارچ 1931ء بروز اتوار جامع مسجد ہی کے صحن میں صرف دو طالب علموں حضرت مولانا حافظ حبیب احمد صاحب اعمیٰ محلہ گدڑی، حضرت مولانا حافظ عزیز احمد صاحب محلہ اکبر پورہ سے '''جامعہ مسعودیہ نور العلوم'''کی بنیاد رکھی اور علم وعرفان کا ایک چراغ روشن کیا۔
مفکر ملت حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب نامیؒ نے جامعہ نور العلوم کی بنیاد ایسے وقت میں رکھی جب کہ ہر چہار جانب ظلمت وتاریکی چھائی ہوئی تھی، علم سے لوگ قال اللہ وقال الرسول کے نغمے اور زمزمے کانوں میں رس گھولنے لگے۔ چنانچہ حضرت مولانا نامیؒ نے اس ادارہ کی تعمیر وترقی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور اس میں ہمہ تن لگ گئے اور اپنے خونِ جگر سے اس کی آبیاری کرکے اس کو بام عروج تک پہنچایا، عمدہ تعلیم وتربیت کی وجہ سے طلبہ کی تعداد تیزی سے بڑھی اور مدرسہ کے لیے مستقل عمارت کی ضرورت محسوس ہوئی، تو لوگوں کے مشورے سے جامع مسجد سے متصل ''راجہراجا نانپارہ'' کی ’’لیا محل‘‘ نامی عمارت جو خالی پڑی تھی، عالیجناب ''سعادت علی خاں'' راجہراجا نانپارہ سے حاصل کرکے مدرسہ جامع مسجد سے اسی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔
حضرت مولانا نامیؒ نے تعلیم کے ساتھ مدرسہ میں صنعت وحرفت کا شعبہ بھی قائم کیا، تاکہ طالبان علوم نبوت فراغت کے بعد قوم پر بار بنے بغیر کسب حلال کے ذریعہ خود کفیل ہوسکیں، اس سلسلے میں جوتا سازی، پارچہ بافی،کارپنٹری، جلد سازی کا کام شروع کرایا، آخری دونوں کام سال ڈیڑھ سال میں بند ہو گئے، لیکن جوتا سازی کا شعبہ کافی دنوں تک جاری رہا اور بہت سے طلبہ نے فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح مولانا نامیؒ نے جامعہ کا الحاق عربی فارسی بورڈ سے کرایا جس کے امتحانات میں طلبہ شریک ہوتے اور امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے اور جامعہ کو گورنمنٹ سے ایڈ بھی ملتی تھی۔ (33؍ سالہ معاینوں کا مجموعہ/4)