111,622
ترامیم
JarBot (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
م (خودکار: خودکار درستی املا ← راجا) |
||
|death_place = [[شروبیلگولا]]، [[کرناٹک]]<ref>[http://books.google.com/books?id=i-y6ZUheQH8C&printsec=frontcover#v=onepage&q&f=false Chandragupta Maurya and his times] By Radha Kumud Mookerji, 4th ed. 1966, p.40. ISBN 81-208-0405-8; 81-208-0433-3</ref>
}}
'''چندر گپت موریا''' (Chandragpta Maura) [[ہندوستان]] کی [[موریا|موریا سلطنت]] کا بانی تھا۔ عام روایات کے مطابق یہ نند[چندر خاندان کا فرد تھا جوکسی بنا پر
چندر گپت سے [[تاریخ ہند]] کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جو شمالی ہند کے اتحاد اور ہندو تمذن کی نشونماہ نظام حکومت کی توسیع اور برہمنت کے اثر و رسوخ کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ پہلا حکمران ہے جس نے شمالی ہند کی تمام ریاستوں کو زیر کرکے ایک متحدہ حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنی مملکت کو خلیج بنگال سے لیکر بحیرہ عرب تک وسیع کیا۔ اس نے اپنے چوبیس سالہ (322ء تا 298ء ق م) دور میں بڑی بڑی جنگیں لڑیں، جس میں سب سے اہم جنگ [[سکندر اعظم|سکندر]] کے سالار سلوکس Seleuces سے لڑی۔
== پاٹلی پتر ==
سلوکس نے اپنے ایک سفیر میگھستینز Maghasthenes کو اس کے دربار میں بھیجا، جس نے اس عہد کے حالات تفصیل سے قلمبند کیے ہیں۔ میگھستینز پاٹلی پتر کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ شہر نو 9 میل چوڑا اور ڈیرھ میل لمبا تھا۔ اس کے گرد لکڑی کی مظبوط فصیل تھی جس میں چونستھ 46 دروازے تھے اور اس کے اوپر پانچ سو500 برج تھے۔ فصیل کے باہر ایک وسیع اور عمیق قندق تھی جس میں دریائے سون کا پانی بھرا ہوا تھا۔ شہر کے اندر چندر گپت موریا کا محل تھا جو لکڑیوں کا بنا ہوا تھا اور بہت عالی شان تھا۔ اس کے ستونوں اور دیواروں پر سونے کا پانی پھرا ہوا تھا اور ان پر سونے کی بیلیں اور چاندی کے پرندے منقوش تھے۔ تمام عمارتیں ایک وسیع میدان میں تھیں۔ جس میں مچھلی کے تلاب اور انواع قسم کے نمائشی درخت اور بیلیں پائی جاتی تھیں۔
ہم تک صرف پاٹلی پتر دارلسلطنت کے انتظام کی تفصیل پہنچی ہے۔ مگر ہم اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ سلطنت کے اور بڑے شہروں یعنی ٹیکسلا، اجین وغیرہ کا بھی اسی اصول سے انتظام ہوتا ہوگا۔
== بادشاہ اور دربار ==
یہاں شاہی دربار وحشیانہ اور عیش و عشرت کی شان سے نمودار تھا۔ سونے کے آّفتابے اور پیالے جن میں بعض چھ چھ فٹ ہوتے تھے۔ نہایت عمدہ مرصع اور شاہانی کرسیاں۔ تانبے کے برتن جو جوہرات سے ہوتے تھے اور زر بفت کے زرق برق لباس ہر طرف نظر آتے تھے اور ان کی وجہ سے عام درباروں کے مواقع کی چہل پہل اور شان و شوکت زیادہ ہو جاتی تھی۔ جب کبھی بادشاہ مہربانی کرکے شاہی جشنوں کے کے موقع پر رعایا کے سامنے ظاہر ہوتا تو وہ سونے کی ایک پالکی میں سوار ہوتا تھا۔ جس میں موتیوں کی جھالر ٹکی ہوتی تھی اور خود بادشاہ کا ملبوس خاص نہایت باریک ململ ہوتی تھی، جس پر قرمز اور سونے کا کام ہوتا تھا۔ جب کبھی چھوٹے سفر پر کہیں جاتا تھا تو گھوڑے پر سوار ہوتا تھا۔ لیکن مسافت اگر ذرا طولانی ہوتی تھی ہاتھی پر سوار ہوتا تھا۔ جس کا ساز و سامان سونے کا ہوتا تھا۔
عام طور پر
اس تزک و احتشام اور شان اور شوکت اور ہر قسم کی حفاظت کے باوجود
== فوجی نظام ==
== آبپاشی ==
[[ہندوستان]] میں آبپاشی کا مناسب انتظام ایک نہایت ہی اہم امر ہے اور اس بات سے چندر گپت کی سلطنت کی خوبی معلوم ہوتی ہے کہ اس نے ایک خاص محکمہ آبپاشی قائم کیا تھا، جس کا یہ فرض تھا کہ زمینوں کی پیمائش کرے اور پانی نالیوں کا ایسا انتظام کرے کہ ہر ایک شخص کو حصہ رسدی معتدبہ مقدار میں پانی مل سکے۔ اراضی کی پیمائش کی طرف سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ پانی کا محصول ضرور لگایا جاتا ہوگا اور نالیوں کے ذکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آبپاشی کا نظام باکل باقیدہ تھا۔ پشی گپتا جو چندر گپتا کا کی حکومت کی طرف سے مغربی صوبوں کا عامل تھا دیکھا کہ ایک چھوٹی سی ندی کو روکنے سے آبپاشی کے لیے ایک نہایت عمدہ تالاب بن سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے ایک جھیل سندر سن (یعنی خوبصورت) نامی قلعے کی مشرقی جانب ایک پہاڑی اور اس کے آگے کتبے کی چٹان تک مشرقی زمین کو لے کر تیار کی۔ مگر اس سے سوا اور ضروری نالیاں بنانے میں کامیاب نہ ہوا۔ چندر گپتا کے پوتے اشوک کے زمانے میں اس کے نائب
[[ہندوستان]] کے دیسی قانون کی رو سے ہمیشہ تمام مزروغہ زمین بادشاہی ملک قرار دی گئی ہے اور بادشاہ کا یہ حق تسلیم کر لیا گیا ہے کہ لگان یا محصول وصول کرے جو یا تو اس کی پیداوار یا اس پیداوار کی قیمت کا ایک معتدبہ حصہ ہوتا تھا۔ اس زمانے میں بندوبست اراضی کی تفصیل ہم تک نہیں پہنچی اور ہم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا ہر سال نیا بندوبست ہوا کرتا تھا یا اس سے زیادہ مدت میں برائے نام تمام پیدا وار کا چوتھائی حصہ سرکار محصول کے طور پر جمع کیا کرتی تھی۔ جیسے کہ اس زمانے میں بھی ہوتی ہے اور یہ ناممکن تھا کہ تمام صوبوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ اس کے علاوہ چند اور غیر مصرحہ ابواب میں بھی وصول کیے جاتے تھے۔ چونکہ فوج میں سپاہی پیشہ نوکر رکھے جاتے تھے اور ان کے لیے جنگجو اقوام سے منتخب کیا جاتا تھا اس لیے کاشکار فوجی خدمت سے مستثنیٰ تھے اور مگھیشنز نہایت تعجب اور حیرت سے بیان کرتا ہے کہ عین اس وقت جب دو حریف بادشاہوں کی فوجوں میں مقابلہ ہو رہا اور کاشکار نہایت اطمینان سے امن کے ساتھ کام کرتا تھا۔
|