"دیوان کوڑا مل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
'''دیوان کوڑا مل مہاراجہ بہادر''' (متوفی ۱۷۵۲1752) اٹھارویں صدی کے پنجاب میں مغلوں کا ایک وفادار افسر تھا۔
== پیدائش اور ابتدائی حیات ==
چگھ خاندان کے ایک اروڑا دلو رام کا بیٹا تھا۔ دلو رام موجودہ پاکستان کے ضلع جھنگ کے شہر شور کوٹ کے ایک قریبی گاؤں کا رہائشی تھا۔ کوڑا مل کی ابتدائی حیات کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ عبرت نامہ کے مصنف مفتی علی الدین نے اس کا ذکر کوڑا مل اروڑا قانون گو ملتان کے نام سے کیا ہے۔ ایسا لگتا تو کہ ہے بھی اپنے باپ اور دادا کی رح ملتان کے محکمہ مسلط کا اہلکار عنیزہ قانون گو تھا۔
 
== ترقی ==
 
بعد یوں یہ لاہور آگیا اورسینئر ملٹری جنرل اور درباری کے عہدے پر پہنچا۔
 
کوڑا مل کے بارے میں سب سے پہلا ذکر اس کے ہم عصر شاہ نواز خان (۱۶۹۹-۱۷۵۷1699–1757) ماسرال عمرہ میں کیا۔ شاہ نواز خان کے مطابق کوڑا مل نے اس وقت کے لاہور اور ملتان کے گورنر زکریا خان کے حکم پر ۱۷۳۸1738 میں پناہ بھٹی کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی تھی۔ پناہ بھٹی دھاوڑیاں کے ایک گروہ کا سردار تھا۔ راوی کے کناروں سے شمال تک اور مغرب میں حسن ابدال تک کا سارا مغربی پنجاب اس کے رحم و کرم پر تھا۔ اسے مقابلے کے بعد بالآخر گرفتار کر لیا گیا اور بعد ازاں سولی پر لٹکا دیا گیا۔
 
== ملتان کا دیوان ==
کوڑا مل کے بارے میں سب سے پہلا ذکر اس کے ہم عصر شاہ نواز خان (۱۶۹۹-۱۷۵۷) ماسرال عمرہ میں کیا۔ شاہ نواز خان کے مطابق کوڑا مل نے اس وقت کے لاہور اور ملتان کے گورنر زکریا خان کے حکم پر ۱۷۳۸ میں پناہ بھٹی کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی تھی۔ پناہ بھٹی دھاوڑیاں کے ایک گروہ کا سردار تھا۔ راوی کے کناروں سے شمال تک اور مغرب میں حسن ابدال تک کا سارا مغربی پنجاب اس کے رحم و کرم پر تھا۔ اسے مقابلے کے بعد بالآخر گرفتار کر لیا گیا اور بعد ازاں سولی پر لٹکا دیا گیا۔
 
زکریا خان نے کوڑا مل کو ملتان کا دیوان تعینات کر دیا۔ ۱۷۴۶1746 کے اوائل میں لاہور کے گورنر یحی خان کے عہد میں جب لاہور کے دیوان لکھپت رائے نے سکھوں سے مقابلے میں مارے گئے اپنے بھائی جسپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لئے سکھ قوم کو ختم کرنے کی قسم کھائی اور اس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پر لاہور کے سکھوں جن میں زیادہ تر گھریلو ملازم اور چھوٹے دکاندار تھے کو گرفتار کر کے قتل کرنے کا حکم دیا تو کوڑا مل نے لاہور کے بااثر ہندووں کو ساتھ لیکر لکھپت رائے سے ان بے گناہ سکھوں کی جان بخشی کی درخواست کی جو بے سود ثابت ہوئی اور ان تمام گرفتار شدہ سکھوں کو ۱۰10 مارچ ۱۷۴۶1746 کو قتل کر دیا گیا۔
==ملتان کا دیوان==
لکھپت رائے خود ایک بڑی فوج لیکر سکھوں سے مقابلے کو نکلا جو جنگلوں اور پہاڑوں میں روپوش تھے۔ لکھپت رائے کی سکھوں کے خلاف یہ مہم یکم مئی ۱۷۴۶1746 میں ختم ہوئی جس میں لگ بھگ سات ہزار سکھ مقتول ہوئے اور تین ہزار کو گرفتار کر لیا گیا جنہیں بعد میں لاہور لے جاکر قتل کر دیا گیا۔ اس حادثے سے دلبرداشتہ ہوکر کوڑا مل ملتان چلا گیا جہاں اس وقت یحی خان کو چھوٹا بھائی شاہ نواز خان گورنر تھا۔ نومبر ۱۷۴۶1746 میں دونوں بھائیوں میں ایک خانگی لڑائی شروع ہو گئی نتیجتا یحی خان کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ شاہ نواز خان ۲۱21 مارچ ۱۷۴۷1747 کو لاہور کا گورنر بنا اور اس نے کوڑا مل کو لاہور کا دیوان مقرر کر دیا۔ لیکن ۱۱11 جنوری ۱۷۴۸1748 کو احمد شاہ درانی نے لاہور پر قبضہ کر لیا اور ایک افغان سردار جملہ خان کو اپنا گورنر اور لکھپت رائے کو دیوان لاہور تعینات کر دیا۔ لاہور پر احمد شاہ کے قبضے کی وجہ سے شاہ نواز کو دلی فرار ہونا پڑا۔ مگر ۱۲12 مارچ ۱۷۴۸1748 کو سرہند کے قریب مانو پور کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد احمد شاہ کو واپس اپنے ملک جانا پڑا۔ معین الملک جسے سکھوں نے میر منوں کا نام دیا مغل سرکار کی طرف سے لاہور کا گورنر مقرر ہوا۔ کوڑا مل کو نہ صرف دیوان بحال کیا گیا بلکہ صوبہ ملتان کا ڈپٹی گورنر بھی بنا دیا گیا۔ لکھپت رائے کو گرفتار کر کیا گیا اور اس پر تیس لاکھ جرمانہ کیا گیا جس کا وہ صرف ایک ہی حصہ ادا کر پایا۔ کوڑا مل نے بقیہ رقم ادا کر کےاسے سکھوں کے حوالے کردیا جنہوں بے اسے ایک کوٹھڑی میں بند کردیا جہاں وہ چھ ماہ تک بھوک پیاس اور ذلت برداشت کرتا مر گیا۔
 
== حوالہ جات ==
زکریا خان نے کوڑا مل کو ملتان کا دیوان تعینات کر دیا۔ ۱۷۴۶ کے اوائل میں لاہور کے گورنر یحی خان کے عہد میں جب لاہور کے دیوان لکھپت رائے نے سکھوں سے مقابلے میں مارے گئے اپنے بھائی جسپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لئے سکھ قوم کو ختم کرنے کی قسم کھائی اور اس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پر لاہور کے سکھوں جن میں زیادہ تر گھریلو ملازم اور چھوٹے دکاندار تھے کو گرفتار کر کے قتل کرنے کا حکم دیا تو کوڑا مل نے لاہور کے بااثر ہندووں کو ساتھ لیکر لکھپت رائے سے ان بے گناہ سکھوں کی جان بخشی کی درخواست کی جو بے سود ثابت ہوئی اور ان تمام گرفتار شدہ سکھوں کو ۱۰ مارچ ۱۷۴۶ کو قتل کر دیا گیا۔
* کوڑا ملّ، دیوان، مہاراجہ بہادر سروت : سکھ دھرم وشوکوش، پبلیکیشن بیورو، پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ
لکھپت رائے خود ایک بڑی فوج لیکر سکھوں سے مقابلے کو نکلا جو جنگلوں اور پہاڑوں میں روپوش تھے۔ لکھپت رائے کی سکھوں کے خلاف یہ مہم یکم مئی ۱۷۴۶ میں ختم ہوئی جس میں لگ بھگ سات ہزار سکھ مقتول ہوئے اور تین ہزار کو گرفتار کر لیا گیا جنہیں بعد میں لاہور لے جاکر قتل کر دیا گیا۔ اس حادثے سے دلبرداشتہ ہوکر کوڑا مل ملتان چلا گیا جہاں اس وقت یحی خان کو چھوٹا بھائی شاہ نواز خان گورنر تھا۔ نومبر ۱۷۴۶ میں دونوں بھائیوں میں ایک خانگی لڑائی شروع ہو گئی نتیجتا یحی خان کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ شاہ نواز خان ۲۱ مارچ ۱۷۴۷ کو لاہور کا گورنر بنا اور اس نے کوڑا مل کو لاہور کا دیوان مقرر کر دیا۔ لیکن ۱۱ جنوری ۱۷۴۸ کو احمد شاہ درانی نے لاہور پر قبضہ کر لیا اور ایک افغان سردار جملہ خان کو اپنا گورنر اور لکھپت رائے کو دیوان لاہور تعینات کر دیا۔ لاہور پر احمد شاہ کے قبضے کی وجہ سے شاہ نواز کو دلی فرار ہونا پڑا۔ مگر ۱۲ مارچ ۱۷۴۸ کو سرہند کے قریب مانو پور کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد احمد شاہ کو واپس اپنے ملک جانا پڑا۔ معین الملک جسے سکھوں نے میر منوں کا نام دیا مغل سرکار کی طرف سے لاہور کا گورنر مقرر ہوا۔ کوڑا مل کو نہ صرف دیوان بحال کیا گیا بلکہ صوبہ ملتان کا ڈپٹی گورنر بھی بنا دیا گیا۔ لکھپت رائے کو گرفتار کر کیا گیا اور اس پر تیس لاکھ جرمانہ کیا گیا جس کا وہ صرف ایک ہی حصہ ادا کر پایا۔ کوڑا مل نے بقیہ رقم ادا کر کےاسے سکھوں کے حوالے کردیا جنہوں بے اسے ایک کوٹھڑی میں بند کردیا جہاں وہ چھ ماہ تک بھوک پیاس اور ذلت برداشت کرتا مر گیا۔