"مخدوم عبد الرشید حقانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Shuaib-bot (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 3480920 ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔
(ٹیگ: رد ترمیم)
سطر 18:
}}
 
'''سلطان العارفین حضرت مخدوم [[عبد الرشید]] حقانی''' برصغیر میں سلسلہ [[قادریہ]] کے عظیم روحانی بزرگ ہیں۔ آپ کا مزار [[ملتان]]، [[پاکستان]] کے قریب آپ کے نام سے منسوب قصبے '''مخدوم رشید''' میں مرجع خلائق ہے۔ آپ علوم ظاہری و باطنی سے مالا مال تھے، بیک وقت حافظ قرآن، قاری، مفسر، عالم، محدث، عارف، ولی، غوث زماں تھے۔ پورے برصغیر میں نہ صرف آپ کا شہرہ تھا بلکہ صدق و عدل کی صفات کی وجہ سے آپ کا لقب '''حقانی''' مشہور ہو گیا تھا۔ آپ کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ساری زندگی اسلام کی سربلندی اور عشق مصطفٰی کی شمع روشن کرتے ہوئے گزاری، جن کی کوششوں سے لاکھوں مسلمان علم دین کی دولت سے سرفراز ہوئے، آپ نے جودو سخا کی وہ ارفع مثال قائم کی کہ معاشرے پر سماجی، معاشرتی اور معاشی مثبت تبدیلیاں رونماں ہونے لگیں۔ توکل علی اللہ، عشق رسول پاک، عدل، تکریم انسانیت، آپ کی تعلیمات کی اصل متاع ہیں۔ آپ کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ [[شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی]]، [[شیخ فرید الدین گنج شکر]]، [[شاہ شمس تبریزی]]،[[لال شہباز قلندر]]، [[جلال الدین رومی]] اور [[جلال الدین سرخ بخاری]]، [[بو علی شاہ قلندر]]،[[پیر موسی نواب]] ان کے ہم عصر اولیاء تھے۔ آپ نسباً سادات ہاشمی ولحسنی ہیں۔
 
== ولادت ==
آپ 15 [[ربیع الاول]] 581ھ کو [[ملتان]] کے قریب [[کوٹ کروڑ ]]، [[لیہ]] میں ایک کامل بزرگ مخدوم سید وحید الدین احمد غوث اور سیدہ جنت بی بی (دختر سید [[شرف الدین عیسیٰ]] جیلانی بن سید عبد القادر جیلانی) کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین نے آپ کا نام اللہ کے صفاتی ناموں میں سے ایک '''محمد عبد الرشید''' رکھا۔
== نسب ==
آپ والد کی طرف سے [[سادات]] [[ہاشمی]] اور والدہ کی جانب سے [[سادات]] حسنی ہیں۔
 
== ابتدائی تعلیم و تربیت ==
حضرت مخدوم عبد الرشید حقانی نے خالص علمی و روحانی اور صوفیانہ ماحول میں آنکھ کھولی اور بہت کم عمری میں مروجہ علوم کے مراحل طے کیے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے دادا مخدوم کمال الدین علی شاہ خوارزمی کے قائم کردہ مدرسہ میں اپنے دادا اور والد حضرت مخدوم سید وحید الدین احمد غوث کے زیر سایہ کوٹ کروڑ میں ہی حاصل کی اور 15 سال کی عمر میں قرآن پاک کا حفظ مکمل کر لیا۔ بعد ازاں آپ نے ملتان کا رخ کیا جو اس وقت [[عالم اسلام]] کا ایک عظیم گڑھ بن چکا تھا۔ مزید حصول علم کے لیے آپ نے اپنے سات خدمت گاروں کے ہمراہ [[ملتان]] سے [[مکہ]]، [[مدینہ]]، [[خراسان]]، [[بغداد]]،[[بخارا]]، [[ہمدان]]، [[بلخ]] کا سفر کیا۔ [[مکہ]] پہنچنے کے بعد بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور [[مدینہ]] میں روضہ رسول ﷺ کی زیارت کی اور پانچ سال تک [[مدینہ]] میں ہی رہے اور وہاں موجود جید علما سے علم حاصل کرنے کے بعد مختلف وفود کو حدیث، فقہ سے متعلق بھی درس دیتے رہے۔ پانچ سال [[مدینہ]] میں رہنے کے بعد آپ واپس [[مکہ]] تشریف لے گئے اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد [[بیت المقدس]] کا رخ کیا اور وہاں انبیا کرام کے مزارات پر حاضری دی اور اس وقت کے بڑے بڑے علما مشائخ سے ملاقاتیں کیں اور فیض پایا،اور قبلہ اول میں کچھ عرصہ قیام کیا۔
 
== شجرہ طریقت ==
سطر 51:
 
== خاندانی پس و منظر ==
'''مخدوم عبد الرشید حقانی''' کے آبا ؤ اجداد [[بنو ہاشم]] سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے خاندان کے ایک بزرگ حضرت امیر [[تاج الدین]] المطرف کو بنو امیہ کے حکمران مروان الحکم نے زبردستی اپنی بیعت پر مجبور کیا ۔ مروان کے زبردستی بیعت پر مجبور کرنے کی وجہ سے آپ کو اپنے وطن سے ترک سکونت اختیار کرنا پڑی۔ اور آپ ہجرت کر کے مع اہل و عیال '''الجبال آباد''' آباد ہو گئے، جو بعد میں [[خوارزم]] اور اب [[ترکمانستان]] کے نام سے مشہور ہے۔ خاندانی عزت و شرف و سیادت بنو ہاشم کی بنا پر یہ گھرانہ ہمیشہ معزز و مقتدر رہا، لہذا یہاں بھی آپکی اولاد فضل و کمال میں یکتا ٹھہری۔ اور سلاطین وقت کے ممدو معاون رہے اور اور خاندانی پس منظر کی بنا پر باقاعدہ جاگیر اور منصب حاصل ہوئے۔ لہذا اسی وجہ سے '''امیر تاج الدین المطرف''' سے لے کر '''سلطان ابی بکر''' تک کی ہستیاں والیاں ریاست میں شمار ہوتی ہیں۔ اپ کے خاندان نے باقاعدہ [[خوارزم]] کے اس علاقے میں حکومت قائم کی اور عدل و انصاف سے عوام کے دلوں پر بھی حکمرانی کی۔ امیر تاج الدین المطرف کی اولاد میں سے ایک بزرگ ہستی جو '''سلطان شاہ حسین''' کے نام سے موسوم ہے، رفقا [[سلطان سبکتگین]] و [[محمود غزنوی]] میں شامل تھی، جنھیں ان بادشاہوں کے دربار میں ایک مقام حاصل تھا، [[سلطان محمود غزنوی]] کے تیسرے حملے کے وقت اس کے ہمراہ ہند میں وارد ہوئی۔ [[سلطان محمود غزنوی]] نے جا بجا اپنے قلعے اور چھاؤنیاں قائم تو ایک قلعہ [[کوٹ کروڑ]] میں بھی قائم کیا۔ قلعہ [[کوٹ کروڑ]] کی وجہ تسمیہ اس میں ایک کروڑ بار سورہ مزمل کی تلاوت کرنا ہے اور اب یہ جگہ حضرت کی اولاد میں سے ایک معروف روحانی بزرگ '''سید صدر الدین [[محمد یوسف]] ''' المعروف لعل عیسن کروڑ کے نام سے مشہور ہے۔ [[سلطان محمود غزنوی]] نے یہ قلعہ '''سلطان شاہ حسین''' سے عقیدت و احترام رکھتے ہوئے آپ کے سپرد کیا اور ایک کروڑ کے علاقے میں ایک بڑی جاگیر آپ کے حوالے کی اور یہیں پر بعد میں مخدوم عبد الرشید حقانی کے دادا '''مخدوم کمال الدین علی شاہ''' کی عدل و انصاف سے بھرپور حکومت قائم ہوئی۔ آپ بڑے صاحب کمال اور بزرگ ہستی تھے، غریبوں کی خدمت کرتے اور ظالم کے ساتھ سختی سے پیش آتے۔ [[کروڑ لعل عیسن|کروڑ]] کے علاقے میں آپ کے خاندان کو بڑی عزت و تقریم حاصل تھی۔ مخدوم کمال الدین علی شاہ نے ہمشیرہ [[شیخ عبد القادر جيلانی]] سیدہ خیر النساء سے عقد کیا اور جن سے آپ کو اللہ نے دو فرزند عطا کیے: مخدوم سید وحید الدین احمد غوث اور مخدوم سید وجیہ الدین محمد غوث۔
 
مخدوم کمال الدین علی شاہ کو تاریخ میں وہ کمال حاصل ہے جو پوری تاریخ میں شاید ہی کسی حاصل ہو کیونکہ آپکے فرزند اکبر سے [[سلسلہ قادریہ]] کو برصغیر پاک و ہند میں بنیاد کی فضیلت حاصل ہوئی اور فرزند اصغر سے سلسلہ سہروردیہ کو دوام حاصل ہوا۔
 
== بیعت و خلافت ==
سطر 77:
* مخدوم محمد سعید الدین (المعروف شیخ سادن شہید)
* مخدوم محمد فقیر علی شاہ (المعروف پیر ملا فقیر)
* بی بی مخدومہ رشیدہ خاتون (زوجہ شیخ السلام مخدوم بہاؤالدین زکریا، والدہ ماجدہ مخدوم صدر الدین عارف، دادی سید شاہ [[رکن الدین]] عالم نوری حضوری)
* بی بی مخدومہ بصراں
 
== قرامطیوں کے خلاف تحریک ==
ابو محمد مشتاق عکس و تحریر کے مقالہ ''مخدوم عبد الرشید حقانی رحمتہ اللہ'' میں لکھتے ہیں، یہ اس دور کی بات ہے کہ جب مخدوم عبد الرشید حقانی [[کوٹ کروڑ]] میں جہاں فرائض سلطنت نبھا رہے تھے وہاں اپنے آباؤ اجداد کی طرح علم و عمل کے ذریعے دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں پوری طرح مصروف تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں [[کوٹ کروڑ]] میں [[قرامطہ]] اثرات نہ پھیل سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ مخدوم عبد الرشید حقانی کی موجودگی میں قرامطیوں کو اپنے عقائد و نظریات کی اشاعت کا موقع نہ مل سکا البتہ [[ملتان]] میں قرامطیوں نے اپنے مذہب کی خوب اشاعت کی اس لیے [[ملتان]] کے گرد و نواح اور [[دیہی علاقہ]] جات میں [[قرامطہ]] کے نظریاتی اثرات موجود تھے۔ ایک مرتبہ 1191ء [[شہاب الدین غوری]] ایک لاکھ ستر ہزار فوج لیے غزنی سے روانہ ہوا اس دوران میں اس کا گزر [[لیہ]] سے ہوا اسے بتایا گیا اس وقت یہاں کی سربراہ حکمران شخصیت 18 سال کے نوجوان [[عالم دین]] ہے جو [[کوٹ کروڑ]] لیہ میں قیام پزیر ہے۔ شہاب الدین غور ی نے مخدوم حقانی سے ملاقات کی اور ملتان میں قرامطی اثرات پھیلنے کے خدشہ کا اظہار کیا اور ساتھ ہی آپ سے [[ملتان]] منتقل ہونے کی گزارش کی اور اس پر مخدوم حقانی کو اس نے آمادہ کر لیا۔ سلطان غوری کا مخدوم حقانی کو ملتان منتقل کرنے کا واحد مقصد قرامطیوں کا قلع قمع کرنا تھا۔ مخدوم حقانی سلطان غوری کی درخواست پر کوٹ کروڑ کی جاگیرات سے دست بردار ہو کر ملتان قیام پزیر ہو گئے اس نے ملتان میں کوٹ کروڑ کی سربراہی کے بدلے میں آپ کو وسیع جاگیر عطا کی۔ ملتان منتقل ہونے کے ساتھ ہی کوٹ کروڑ میں قائم مدرسہ بھی ملتان منتقل کر دیا۔ ملتان میں آپ کے علم و رشد کا شہرہ دور دور تک ہوا اور لوگ آپ کے گرد جوق در جوق جمع ہونے لگے۔ تاریخ دان نور احمد خان فریدی لکھتا ہے کہ خصوصی حالات کی بنا پر آپ (مخدوم حقانی) کوٹ کروڑ سے ملتان ہجرت کر آئے اور قلعہ قدیم میں اس مقام پر قیام فرمایا جہاں اس وقت حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی کا مزار ہے۔ آپ کے [[ملتان]] میں قیام کے دوران میں [[قرامطہ]] تحریک کو ہمت نہ ہو سکی۔
 
== برصغیر کی پہلی اقامتی درس گاہ کا قیام ==
قرامطیوں سے نمٹنے کے بعد مخدوم حقانی نے ملتان سے جانب مشرق 28 کلومیٹر کے فاصلے پر ابو الفتح مڑل سے قطعہ اراضی خرید کر جنگل و بیابان میں ایک مسجد اور دینی و اخلاقی درس گاہ کی بنیاد رکھی جسے برصغیر میں پہلی اقامتی درس گاہ ہونے کا اعزاز و شرف عطا ہوا۔ (پہلے یہاں نرسنگ پسرایسر دیو کا ستھان تھا) اس درس گاہ کا مقصد علمائے حق و مبلغین اسلام اور صوفیائے کرام کی ایک ایسی جماعت کی آبیاری کرنا تھی جو لوگوں کی اخلاقی و نظریاتی روحانی ودینی تربیت کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو، یہ درس گاہ جلد ہی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر گئی۔ اسی درس گاہ میں علوم دنیاوی کے ساتھ ساتھ علوم دینی فلسفہ و منطق معقولات و منقولات کا علم بھی سکھایا اور پڑھایا جاتا تھا۔ نہایت قلیل عرصہ میں مخدوم حقانی کے علم و رشد اور فقر ولایت کا چرچا چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ اکناف عالم سے سعید روحیں کھچ کھچا کر یہاں جمع ہونے لگیں حتیٰ کہ قال ﷲ و قال الرسول ﷲ سے ملتان کے در و دیوار گونجنے لگے۔ آپ کی مجلس میں علماءمشائخ جمع ہوا کرتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا آپ کی مجلس میں علمائے مشائخ کی ایک جماعت بحث و مناظرہ میں سرگرم تھی حتیٰ کہ [[سہ پہر]] گزر گئی کہیں شام کوجا کر اجلاس برخاست ہوا۔ یہ معمول بلاتاخیر روزانہ جاری رہتا تھا۔ یہاں سے فارغ التحصیل علما و فضلاء نے اکناف عالم میں پھیل کر تبلیغ اسلام اشاعتِ دین میں لازوال کردار ادا کیا۔ آپ کی تعلیمات کا عکس آج بھی ان علاقوں کے لوگوں کی تہذیبی و ثقافتی زندگیوں میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ آپ کی درسگاہ الگ الگ دو شعبہ جات پر مشتمل تھی۔ ایک شعبہ علوم دینیہ واخلاقی و روحانی تربیت کے لیے مخصوص تھا جبکہ دوسرا شعبہ فلسفہ منطق زبان و بیان جیسے علوم کے لیے خاص تھا۔
 
== روایت گنج شکر ==
سطر 92:
[[لال شہباز قلندر]] مجزوبانہ اور قلندرانہ طریقہ اختیار کرتے تھے، ملتان کے قاضی کاشانی جو خود بھی عالم تھے لیکن قلندرانہ طریقے کو پسند نہیں فرماتے تھے نے لال شہباز قلندر پر فتوی جاری کر دیا، لال شہباز قلندر جو اس وقت ملتان کے قریب کسی گاؤں میں موجود تھے، آپ کے کسی مرید نے آپ کو قاضی صاحب کے فتوی سے آگاہ کیا تو آپ بڑے غضبناک ہوئے اور اپنے مریدوں کے ساتھ [[ملتان]] کی طرف چل دے۔ شیخ السلام مخدوم بہاؤ الدین زکریا کو کسی نے اطلاع دی کے [[لال شہباز قلندر]] نامی کوئی بزرگ قاضی کے فتوی کو سن کر غضبناک ہو کر [[ملتان]] تشریف لا رہے ہیں، مخدوم بہاؤ الدین زکریا نے کسی سے کہا کے انھیں ہماری محفل میں لے آو، اس وقت اس محفل میں مخدوم عبد الرشید حقانی بھی موجود تھے۔ آپ نے اپنے بیٹے مخدوم محمد حسن سے کہا کے جاؤ اور قلندر کو احترام سے ہمارے پاس لے آؤ، جب قلندر خانقاہ پر پہنچے تو عظیم بزرگ ہستیوں کی موجودگی میں اپنا غصہ بھول بیٹھے۔ لال شہباز قلندر اور مخدوم حقانی ایک دوسرے سے بڑے اخلاق اور پیار سے پیش آئے۔
== وصال ==
مخدوم حقانی نے عمر کے آخری حصے میں گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی اور ہم وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتے اور مریدین سے بھی صرف خاص اوقات میں ملاقات فرماتے۔ ایک دن آپ اپنے حجرے میں یاد الہی میں مصروف تھے، تو ایک نورانی چہرے والے ایک بزرگ ہاتھ میں ایک پھول لیے آپ کے حجرے کے باہر تشریف لائے اور حجرے کے باہر آپ کے پوتے مخدوم سید [[مخدوم سلطان ایوب قتال]] سے مخاطب ہو کر کہا کے یہ پھول حضرت کی خدمت میں پیش کردو، مخدوم سید [[مخدوم سلطان ایوب قتال]] پہلے تو ہچکچائے اور اس کے بعد وہ پھول لے کر اپنے دادا کی خدمات میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا سنایا۔ مخدوم حقانی نے اس پھول کو سونگھا اور اشارہ سمجھ گئے کہ پروردگار کا بلاوا آگیا ہے۔ آپ نے دو رکعت نفل پڑھی اور آخری سجدے میں (بالآخر 669 ھ) [[آواز دوست]] پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی اور عالم برززخ کا سفر کیا۔ اور یوں آسمان تصوف کا حیات آفریں ستارہ ہم سے جدا ہوا۔ آپ کے نام سے منسوب قصبہ مخدوم رشید میں قائم کردہ مدرسہ سے ملحقہ آپ کے حجرے میں مخدوم سید [[مخدوم سلطان ایوب قتال]] کے ہاتھوں آپکی تدفین ہوئی۔
 
== جامع مسجد حقانی ==
آپ کے مزار کے ساتھ ہی ایک نہایت عالیشان [[جامع مسجد]] جو پانچ بڑے گنبدوں پر مشتمل ہے، ملک بھر میں اپنے منفرد [[طرز تعمیر]] کی واحد مسجد ہے۔ جس پر ملتانی کاشی گری کا کام نہایت خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے۔
 
== کراماتی چشمہ ==
سطر 112:
* انوار غوثیہ از مخدوم حسن بخش ، جلد اول(1909ء) صفحہ 163۔
*مکاشفتہ الطریقت ملفوظ نوابیہ (شجرہ اولاد حضرت شاہ وحید الدین احمد غوث رحمتہ الله علیہ، پدر گرامی حضرت مخدوم عبدالرشید حقانی رحمتہ الله علیہ)۔
*روزنامہ امروز ، 13 دسمبر 1980 پروفیسر بشیر احمد ملک (خاندانی پس و منظر کوٹ کروڑ، سلطان [[شاہ حسین]] رحمتہ الله علیہ)۔
* کتاب حالات مبارکہ "حضرت پیر شاہ موسیٰ نواب رحمتہ اللہ علیہ، جلد اول، صفحہ 2 تا 7۔ (مصنف محمد عبد للہ تونسوی نظامی، رحیم یار خان)۔
* کتاب تذکرہ حالات حضرت مخدوم عبد الرشید حقانی رحمتہ اللہ علیہ، جلد اول، صفحہ 3 تا 5۔ (پبلشر چشتی پرنٹنگ پریس، کراچی)۔
*مقالات مولوی محمد شفیع جلد پنجم صفحہ 138 ، مجلس ترقی ادب لاہور 1981ء (مخدوم کمال الدین علی شاہ خوارزمی رحمتہ الله علیہ)۔
*سید عبدلقادر گیلانی (حیات ۔اثار) تالیف یونس الشیخ ابراہیم السامرانی، (مطبوعہ بغداد) صفحہ 61۔
*سوانح [[سلطان العارفین]] ، غوث زماں حضرت مخدوم عبدالرشید حقانی رحمتہ الله علیہ ۔
*منبع البرکات ملفوظ شیخ شمس الدین (بحوالہ ازواج و اولاد)۔
*مسالک السالکین جلد دوم صفحہ 509 بحوالہ خم خانہ تصوف از ڈاکٹر ظہور الحسن شارب ، صفحہ 43، صابری دارالکتب لاہور1980ء۔
*پنجاب گزیٹیر (ملتان ڈسٹرکٹ) کننگھم رپورٹ۔
*مقالات مولوی محمد شفیع ، جلد پنجم مرتب احمد ربانی صفحہ 194۔علانیہ [[محمد شاہ]] (سلطان سلطنت دہلی) ۔
*نور محمد تھند"تاریخ لیہ" صفحہ 135-
*ابو محمد مشتاق عکس و تحریر مقالہ مخدوم عبد الرشید حقانی علیہ رحمة۔
سطر 134:
[[زمرہ:عرب نسل کی بھارتی شخصیات]]
[[زمرہ:ہندوستانی صوفی اولیا]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]