"اردو کی آخری کتاب (تصنیف)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← مہاراجا
سطر 1:
{{اطلاع|غیر ضروری طویل اقتباسات کو نکال کر کتاب کے متعلق مواد شامل کرنے کی ضوورت ہے}}
”اردو کی آخری کتاب“محمد حسین آزاد کی” اردو کی پہلی کتاب “کی دلچسپ پیروڈی ہے۔ پیروڈی یونانی لفظ پیروڈیا سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہے ”جوابی نغمہ“ کے ہیں۔ [[اردو ادب]] میں طنز و مزاح کے اس حربے کو براہ راست انگریزی ادب سے لایا گیا ہے۔ جس میں لفظی نقالی یا الفاظ کے ردو بدل سے کسی کلام یا تصنیف کی تضحیک کی جاتی ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں ایک کامیاب پیروڈی سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ ابن انشاءنے پیروڈی کے فن کو سمجھ کر برتا ہے۔
 
آزاد کی اس کتاب پر ”پطرس بخاری“ ابن انشاءسے پہلے ہاتھ صاف کر چکے تھے۔ لیکن اُن کا نشانہ چند ابتدائی اسباق تھے اور دوسرا دونوں مزاح نگاروں کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے۔ پطرس کا نقطہ نظر محض تفریحی ہے جبکہ ابن انشاءمعاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اُ ن کا مقصد اصلا ح ہے۔
 
”اردو کی آخری کتاب“ 1980ءکے ہنگامی حالات کے پس منظر میں لکھے گئے روزنامچوں کا مجموعہ ہے اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اخبار کی زندگی ایک روزہ ہوتی ہے اور صحافتی نثر ادبی نثر سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ابن انشاءکا معاملہ برعکس ہے نہ تو سطحی کالم نویس تھے کہ ان کے کالم وقتی لحاظ سے تو جوش پیدا کرتے لیکن زمانے کی گرد انہیں ختم کر ڈالتی ہے اور نہ انھوں نے صحافتی زبان کو ادبی زبان میں ضم ہونے دیا۔ بلکہ اعتدال کے ساتھ عام قاری اور ادب کے [[طالب علم]] دونوں کو متاثر کیا۔
 
1970ء میں ملک جس سیاسی ابتری اور جوشیلی سیاست کا شکار تھا۔ اس کوایک حساس فنکار نے کس طرح محسوس کیا ہے اور برتنے کے لیے طنز و مزاح کا سانچہ اختیار کیاہے وہ قابل رشک ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کسی موقع پر ابن انشاءبھی اس ہنگامی صورت حال سے اضطراری کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ لیکن یہ تاثر زیادہ نہیں۔ اردو کی آخری کتاب کا تاریخ کا حصہ اس بات کی غمازی کرتا ہے۔
سطر 12:
مشتا ق احمد یوسفی جو خود بھی مزاح کے شہسوار ہیں ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں، ” بے شمار خوبصورت لیکن متروک اور بھولے بسرے الفاظ کوان کی رواں دواں نثر نے ایک نئی زندگی اور توانائی بخشی ہے اردو مزاح میں اُن کا اسلوب اور آہنگ نیا ہی نہیں ناقابل تقلید بھی ہے۔ “
 
کتاب کی پیش کش کا انداز بہت ہی بہترین ہے کتاب کا ابھی ایک صفحہ بھی نہیں الٹا گیا اور مسکراہٹ قاری کے لبوں پر کھیلنے لگتی ہے۔ یہاں چند مثالیں دے کر اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کتاب بے شمار مختلف اور دلکش، طنزیہ اور مزاحیہ فقروں سے بھر ی پڑی ہے۔ چنانچہ کتاب کے ابتدائی ابواب میں درج سوالات، سبق آموز کہانیاں، ریاضی کے قاعدے، جانوروں کا بیان، پرندوں کا احوال، رامائن اور [[مہا بھارت]] کے زمانے سے لے کر مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور تک کی تاریخ، جغرافیے کے اسباق، مناظر قدرت کے تذکرے، ابتدائی سائنس اور گرائمر کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ اور تو اور مولانا [[شیخ سعدی]] کی حکایات کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔
 
== طنزیہ اسلوب ==
سطر 31:
== تمثیلی انداز رمزیہ انداز ==
اس کتاب کا انداز کہیں تمثیلی اور کہیں رمزیہ ہے اُن کا ہر حربہ اور تجربہ حد درجہ کامیاب ہے۔ جس میں ہماری قومی کوتاہیوں کا ذکر بھی ہے اور انفرادی خود غرضیوں کا تذکرہ بھی وقتی فائدے کے لیے ناجائز ذرائع پر ایمان کی داستان کا بیان بھی ہے اور اس دور کے حکمرانوں کی نااہلیاں اور حماقتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایسے لطیف او ر شگفتہ انداز میں ہے کہ قاری دیر تک اس سے لطف انداز ہوتا رہتا ہے۔ حکمرانوں کے اردگرد خوشامدیوں کی کمی نہیں۔ ”دین الٰہی“ کے عنوان سے ایسے لوگوں کو موضوع بنایا گیا ہے جو حکمرانوں کے اردگرد خوشامد کرتے ہیں اوریہ ایسا موضوع ہے جو ہر زمانے میں رائج رہا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ تازہ رہے گا۔ <br>
”چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا۔ مرید اکبر کے گرد جمع ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اے ظل الٰہی تو ایسا دانا فرزانہ ہے کہ تجھ کو تا حیات سربراہ مملکت یعنی بادشاہ وغیر ہ رہنا چاہیے۔ اور تو ایسا بہادر ہے کہ تجھے ہلال جرات ملنا چاہیے۔ بلکہ خود لے لینا چاہیے۔ پرستش کی ایسی قسمیں آج بھی رائج ہیں لیکن اُن کو [[دین الٰہی]] نہیں کہتے۔ “<br>
”ہمار اتمہار خدابادشاہ“ اور ”برکات حکومت انگلیشیہ “ میں ابن انشاءنے آزادی کے بعد بھی رہ جانے والی ناہمواروں کا بیان کیا ہے۔
 
سطر 48:
 
== تاریخ مغلیہ ==
کتاب کا سب سے کمزور حصہ ”تاریخ مغلیہ“ سے شروع ہوتا ہے جب ابن انشاءمکمل طور پر ہنگامی حالات کو موضوع ِ مزاح بناتے ہیں۔ اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ جب یہ اخباری کالم لکھے گئے ہوں گے تو بلا شبہ قارئین کے لیے ان میں غیر معمولی دلچسپی اور جاذبیت کا سامان تھا لیکن ادبی نقطہ نظر سے ایسی تحریروں میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایسے فن پاروں میں لطف کا کوئی سامان نہیں رہتا۔ مثلا اس حصے میں ”بادشاہ اکبر “ فیلڈ مارشل [[ایوب خان]] کو کہا گیا ہے۔ اور نورتن اُس دور کے مرکزی حکومت کے وزراءہیں۔ لیکن آج کے قاری کویہ باب سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
 
== گرائمر ==
سطر 75:
 
” ہمیں قائد اعظم کا ممنون ہونا چاہیے کہ خود ہی مرگئے سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کے لیے ایک جگہ پیدا کردی ورنہ ہمیں بھی گاندھی جی کی طرح ان کو مارنا پڑتا۔ “<br>
تاریخ کے حصے میں ابن انشاءکی چابکدستی قابل تعریف ہے اور بعض نکات کو ایک جملہ کے اضافے سے کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ مثلاً [[محمود غزنوی]] کے بارے میں لکھتے ہیں ”علامہ اقبال سے روایت ہے “ مثلاً<br>
”جب عین لڑائی میں وقت نماز آتا محمود و آیاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے۔ باقی فوج لڑتی رہتی تھی۔ “
 
سطر 99:
[[زمرہ:جدیدنثر]]
[[زمرہ:طنزومزاح]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]