"حلقہ ارباب ذوق" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
'''حلقہ ارباب ذوق''' [[اردو ادب]] کی سب سے فعال تحریکوں میں سے ایک ہے جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔<br />
بقول یونس جاوید:<br />
”حلقہ اربابِ ذوق پاکستان کا سب سے پرانا ادبی ادارہ ہے یہ مسلسل کئی برسوں سے اپنی ہفتہ وار مٹینگیں باقاعدگی سے کرتا رہا ہے۔ جنگ کا زمانہ ہویا امن کا دور اس کی کارکردگی میں کبھی فرق نہیں آیا“<br />
سطر 9:
 
== آغاز ==
29 اپریل 1939ء کو [[سید نصیر احمد]] جامعی نے اپنے دوستوں کو جمع کیا جن میں [[نسیم حجازی]]، تابش صدیقی، محمد فاضل وغیرہ شامل ہیں اور ایک ادبی محفل منعقد کی۔ نسیم حجازی نے اس میں ایک افسانہ پڑھا اور اس پر باتیں ہوئیں اس کے بعد اس محفل کو جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا اور رسمی طور پر اس کا نام ”مجلس داستان گویاں‘’ رکھ دیا گیا بعد میں اس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق“ رکھ دیا گیا۔
 
== اغراض و مقاصد ==
سطر 47:
1967ء سے 1975ء تک
 
حلقہ اربابِ ذوق سیاسی نے تین سالوں میں حلقے کی قدیم روایت کو توڑنے اور نئی اقدار کو بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ ان کا نقطہ نظر مارکسی نظریات سے ماخوذ تھا اس لیے بدلے ہوئے حالات میں اس خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور حلقہ اربابِ ذوق میں ایک ایسی تحریک پیدا ہوئی جسے نو ترقی پسندی سے موسوم کرنا درست ہے۔ چنانچہ بہت سے نوجوان ادبا جو ابھی تک اپنے نظریات کی جہت متعین نہیں کر سکے تھے اس نئی تحریک میں شامل ہو گئے ان میں [[افتخار جالب]] کو اہمیت حاصل ہے۔ نو ترقی پسند ی کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے نہ صرف اس تحریک میں شرکت اختیار کی بلکہ اپنے پرانے نظریات اور تخلیقات سے دست برداری کا اعلان بھی کر دیا۔ حلقے نے ترقی پسندی کو بالخصوص فروغ دیا چنانچہ اس دور میں حلقے نے قومی اور [[بین الاقوامی]] موضوعات کو زیادہ اہمیت دی۔ مباحثوں میں چونکہ سیاست کو بالخصوص توجہ حاصل ہوئی اس لیے اکثر اوقات تنقید نے ہنگامی حالات اختیار کر لیے۔ سیاسی حلقہ اربابِ ذوق کا کارنامہ ہے کہ اس نے بن لکھے دستور پر عمل کی روایت کو ختم کر دیا اور حلقے کے لیے ایک تحریری آئین منظور کروایا۔ اس دور میں سیاسی حلقے کا ایک اور کارنامہ وسیع المقاصد کا انعقاد بھی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق سیاسی کا کردار بنیادی طور پر انقلابی ہے اور اس کے نظریات میں مادی خارجیت کو اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ اب اس تخلیقی عمل سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے سیاست کے عمل کا تابع ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں (27۔ 57) میں حلقہ ارباب ِ ذوق سیاسی نے نئے انقلابی اقدامات سے قدیم حلقے کی بیشتر روایات توڑ دیں لیکن تاحال کسی نئی روایت کو جنم نہیں دیا۔
 
== حلقہ اربابِ ذوق ادبی ==
سطر 219:
== محمد حسن عسکری ==
 
[[محمد حسن عسکری]] میں سوچ کی گمبھیر تا مطالعے کی وسعت اور نتائج کی ہمہ گیریت سب سے پہلے متاثر کرتی ہے۔ عسکری نے ادب میں غیر جانبداری کا اعلان کبھی نہیں کیا چنانچہ انہوں نے فن برائے فن کی برملا حمایت اور [[ترقی پسند تنقید]] اور ادب کی کھلی مخالفت کی اس نے یہ باور کرایا کہ فن نہ صرف حقیقت کو ہی پیش کرتا ہے۔ بلکہ آزادانہ عمل سے حقیقت کی تلاش بھی کرتا ہے۔ چنانچہ اس نے حقیقت کی تلاش کو ایک انفرادی عمل قرار دیا اور فنکار کی پوری انسانیت کا نمائندہ قرار دیتے ہوئے لکھا۔ کہ ”فنکار محض ایک آدمی نہیں ہوتا فنکارتو براہ راست زندگی کا آلہ کا ر ہوتا ہے۔“ میراجی اور عسکری کے نظریات تنقید ادب کایک ہی سرچشمے سے پھوٹتے ہیں۔ عسکری اردو تنقید کی فعال اور موثر آواز تھی۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ میراجی کے بعد حلقے میں فکر کی نئی رو محمد حسن عسکری نے داخل کی۔
 
== ڈاکٹر وزیر آغا ==
سطر 231:
== سجاد باقر رضوی ==
 
[[سجاد باقر رضوی]] نے تنقید فکرکی رو ہند [[اسلامی تہذیب]] میں تلاش کی اور ادب کی تعبیر میں ان عناصر کو اہمیت دی جن سے نیا قومی طرز ِ احساس مرتب ہوتا ہے۔ سجاد کے نظرے ے کے مطابق فن ِ تنقید حیات اور زندگی تنقید فن ہے۔ اور یہ دنوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی تنقید میں اظہار کی قطعیت تو ملتی ہے لیکن انہوں نے کوئی ٹھوس تنقید نظریہ پیش نہیں کیا۔ اور وہ بالعموم حسن عسکری کی صدائے بازگشت ہی نظر آتے ہیں۔
 
== انتظار حسین ==
سطر 256:
 
[[زمرہ:تاریخ ادب اردو]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]