"شمالی کوریائی امریکی سربراہ ملاقات، 2018ء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
پس منظر
سطر 35:
 
2017ء کے اواخر میں شمالی کوریا کی جانب سے پہلے ہائیڈروجن بم اور ہواسونگ-15 نامی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے تجربے کے بعد کم جونگ-اون نے جنوبی کوریا میں ہونے والے [[2018ء سرمائی اولمپکس]] میں ایتھلیٹس بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان کھیلوں کے دوران، کم نے کوریائی سربراہان کے درمیان ملاقات کے ارادے کے لیے بات چیت کی تجویز پیش کی۔ 8 مارچ کو جنوبی کوریا کا وفد اس بات چیت سے واپس آنے کے بعد ریاستہائے متحدہ روانہ ہوا اور کم جونگ-اون کی جانب سے ٹرمپ کو ملاقات کی دعوت کا پیغام دیا۔ دونوں فریقین کی جانب سے اعلیٰ سطحی رابطے قائم کیے گئے، جن میں [[سی آئی اے]] ڈائریکٹر [[مائک پومپیو]] کا [[پیانگ یانگ]] کا دورہ اور [[ورکرز پارٹی آف کوریا]] کے نائب چیئرمین، [[کم یونگ-شول]] کا دورۂ وائٹ ہاؤس بھی شامل تھا۔ امریکا اور جنوبی کوریا کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد دونوں فریقین نے سربراہ ملاقات منسوخ کرنے کی دھمکی دی، اور ٹرمپ نے کم کے نام ایک رسمی خط میں ملاقات منسوخ کرنے کا پیغام بھی دیا؛ تاہم، بعد ازاں، دونوں فریق ملاقات کے لیے تیار ہوگئے۔<ref>{{حوالہ جال | ربط = https://www.channelnewsasia.com/news/asia/trump-kim-summit-in-singapore-could-still-take-place-10278898 | تاریخ اشاعت = 12 جون 2018ء | عنوان = Trump leaves open possibility of Jun 12 Singapore summit with North Korea | ترجمہ عنوان = ٹرمپ نے 12 جون کو شمالی کوریا کے ساتھ سنگاپور سمٹ کا امکان کھلا رکھا ہے | ناشر = چینل نیوز ایشیا | زبان = انگریزی | تاریخ اخذ = 14 جون 2018ء }} </ref>
 
== پس منظر ==
[[تقسیم کوریا|کوریا 1945ء سے تقسیم]] چلا آ رہا ہے۔ 1950ء سے 1953ء تک جاری رہنے والی [[کوریائی جنگ]] کا اختتام جنگ بندی پر تو ہوا مگر امن قائم نہ ہوسکا۔ کوریا کے دونوں دھڑوں کے درمیان تنازع جاری رہا ہے اور امریکی فوجی دستے ایک مشترکہ دفاعی معاہدے کے تحت جنوبی کوریا میں براجمان رہے۔ شمالی کوریا نے 1963ء میں نیوکلیر ریکٹر کی تعمیر شروع کی، اور 1980ء کی دہائی میں ایٹمی ہتھیار بنانے کے پروگرام کا آغاز کیا۔ 1992ء میں [[جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا مشترکہ اعلامیہ]] وہ پہلا موقع تھا جب شمالی کوریا نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے باہر نکلنے کا وعدہ کیا۔ 2002ء میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے موقع پر، امریکی صدر [[جارج ڈبلیو بش]] نے شمالی کوریا کو ’’[[شیطانی اتحاد]]‘‘ (axis of evil) کا حصہ قرار دیا، مگر اس کے باوجود 2005ء میں [[چھ جماعتی مذاکرات]] کے چوتھے مرحلے کے مشترکہ بیان میں، شمالی کوریا نے 1992ء کے اعلامیے پر قائم رہنے اور جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ پابندیوں میں نرمی کے بدلے میں، شمالی کوریا نے رضاکارانہ طور پر اپنے ایٹمی پروگرام کی تفصیل دی، اور اس کے عوض اس کا نام [[دہشت گردی کے ریاستی معاونین]] کی فہرست میں سے نکال دیا گیا۔ اس کے باوجود، معائنہ کاروں کو شمالی کوریا کے ہتھیاروں کو کسی مرکز کا سروے کرنے میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔ [[اوباما انتظامیہ]] کی پالیسی یہ رہی تھی کہ صدارتی توجہ یا اعلیٰ سطحی وفود بھیج کر اشتعال انگیزی کی بجائے، جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ فوجی تعاون بڑھایا جائے۔ آئندہ برسوں میں مزید ایٹمی تجربات کیے گئے اور 2010ء میں [[یانگ پیانگ کی بمباری]] کے بعد شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دسمبر 2011ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد، کم جونگ-اون نے ملک کی سبراہی سنبھالی تو شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام میں مسلسل ترقی ہوتی چلی گئی۔
 
2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے شمالی کوریا کے حوالے سے [[باراک اوباما]] کی صابرانہ پالیسی کی شدید مخالفت کی؛ لیکن سخت موقف کے باوجود مذاکرات کا راستہ کھلا رکھا اور کہا کہ وہ چیئرمین کم جونگ-اون کے ساتھ ’ہیم برگر کھانے‘ کے لیے تیار رہیں گے۔ ٹرمپ نے ایک اور بیان سے فوجی اتحادیوں کی مخالف مول لی جس میں انھوں نے جاپان اور جنوبی کوریا کو اپنی حفاظت خود کرنے کا مشورہ دیا۔ جواباً، ایک شمالی کوریائی ویب سائٹ نے انھیں ’عقل مند سیاست دان‘ قرار دیا۔ 2017ء میں [[مون جے ان]] اس وعدے کے ساتھ جنوبی کوریا کے صدر منتخب ہوگئے کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا آغاز کریں گے۔
 
== حوالہ جات ==