"جنگ جمل" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
م خودکار: ویکائی > جمادی الثانی، جعل سازی |
||
سطر 21:
{{Campaignbox Civil Wars of the Early Caliphates}}
'''جنگ جمل''' [[قصاص عثمان]] کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان ہونے والی پہلی جنگ ہے جو 10 [[جمادی الثانی]] 36 ھ مطابق 4 دسمبر 656ء لڑی گئی۔
== پس منظر ==
سطر 31:
جب مصر، بصرہ اور کوفہ سے آنے والے باغی مدینہ پہنچے تو وہ سیدھے اپنے اپنے "محبوب" لیڈروں علی رضی اللہ تعالی عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے۔ انہوں نے امہات المومنین کے پاس بھی حاضری دی۔ ان سب اصحاب نے آنے والوں (یعنی باغیوں) سے یہی سوال کیا کہ وہ اچانک ان پر کس طرح اتنے مہربان ہو گئے ہیں؟ انہوں نے خلافت کی پیشکشیں بھی ٹھکرا دیں اور انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کیا۔ ادھر سے مایوس ہونے کے بعد مصری باغی خلیفہ کے پاس چلے گئے اور گورنر کے خلاف شکایت پیش کی۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ آپ لوگ اس کی جگہ کس کو گورنر لانا چاہتے ہیں؟ باغیوں نے جواب دیا "ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے محمد کو۔" یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مدینہ میں ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ان صاحبزادے کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جاتا تھا بلکہ انہیں فاسق کہا جاتا تھا اور بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کھلے لفظوں میں ان کے بارے میں نا پسندیدگی کا اظہار کرتی تھیں۔
عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فوری طور پر باغیوں کا مطالبہ تسلیم کیا اور نئے گورنر کی تقرری کا خط لکھ کر محمد بن ابی بکر کے حوالے کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ فوراً مصر پہنچیں۔ باغیوں کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ ان کا یہ مطالبہ اتنی آسانی سے تسلیم کر لیا جائے گا۔ اب ان کے لیے مصر واپسی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہ گیا تھا۔ پھر اس بدنام کہانی کا آغاز ہوا کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے خفیہ طور پر ایک ایلچی مصر بھیجا جس میں گورنر کو مبینہ طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ نئے نامزد گورنر محمد بن ابی بکر جونہی مصر پہنچے انہیں قتل کر دیا جائے۔<ref>طبری، ابن حجر، زوائد، مسند البزار، مسودات پیر جھنڈو پاکستان، المطالب العالیہ ایڈیشن کویت پیرا 4438، ابن العربی، عواصم من القواسم صفحہ 96</ref>
مصری دستہ نے مطمئن ہوکر واپسی کا سفر اختیار کیا۔ نامزد گورنر محمد بن ابی بکر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ راستے میں ایک تیز رفتار اونٹ سوار ان کے پاس سے گزر کر آگے گیا۔ اس کا رخ مصر کی جانب تھا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ وہی اونٹ واپس مدینہ کی طرف جاتا نظر آیا۔ اور ایک بار پھر دیکھا گیا کہ وہی اونٹ سوار دوبارہ مصر کی جانب عازمِ سفر ہے۔ مگر کسی نے اس سے تعرض نہ کیا پھر اچانک اس نے قافلہ والوں پر دشنام طرازی شروع کردی۔ انہوں نے پوچھا "تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟" اس نے بڑے متکبرانہ انداز میں جواب دیا "میں خلیفہ کا قاصد ہوں اور گورنر مصر کے لیے ان کا خط لے کر جا رہا ہوں۔" اور خط بھی انہیں دکھا دیا۔ متجسس ہوکر محمد بن ابی بکر نے وہ خط کھول لیا اور پڑھا جس میں مبینہ طور پر گورنر مصر کو ہدایت کی گئی تھی کہ جونہی نامزد گورنر محمد بن ابی بکر اپنا تقرر نامہ لے کر آپ کے پاس پہنچیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے ساتھیوں کو دیگر سزائیں دی جائیں۔ یہ خط بھی ابن سبا کی ایک اور [[جعل سازی]] تھی۔ سازشیوں کی توقع کے عین مطابق خط پڑھ کر محمد بن ابی بکر برافروختہ ہو گئے۔ انہوں نے فی الفور مدینہ واپسی کا سفر اختیار کیا اور دار الحکومت پہنچ کر طوفان کھڑا کر دیا اور اگرچہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے قسم اٹھا کر انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ خط انہوں نے نہیں لکھا مگر محمد بن ابی بکر نہ مانے۔
مصری باغی پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے اور مطالبہ کیا کہ خلیفہ کے قتل کے لیے ان کا ساتھ دیں جنہوں نے بلاوجہ ہمارے قتل کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا" آپ ہمیں کس طرح انکار کرسکتے ہیں؟ آپ ہی نے تو خط لکھ کر ہمیں بلوایا ہے۔" انہوں نے کہا "خدا کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا خط نہیں لکھا۔" باغی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا "تم مصر کے راستے سے عثمانؓ کے ایک جعلی خط کا بہانہ بنا کر واپس آ گئے ہو مگر بصرہ اور کوفہ جانے والے دستے جو اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہوچکے تھے وہ بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ واپس پہنچ چکے ہیں۔ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ تم لوگوں کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ یقیناً یہ سازش کا شاخسانہ ہے" <ref name="طبری"/>۔
حج کا زمانہ قریب آ رہا تھا۔ خلیفہ نے مدینہ گریژن کے فوجی دستوں کو حج پر جانے کی اجازت دے دی اور مدینہ امن و امان قائم رکھنے والی فوج سے خالی ہو گیا۔ باغیوں نے خلیفہ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر لیا اور انہیں مسجدِ نبوی میں نمازیوں کی امامت سے روک دیا۔ غفیقی نامی ایک یمنی نے، جو ابن سبا کا نائب تھا، خلیفہ کی جگہ نمازوں کی امامت شروع کردی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ابن سبا کی طرح وہ بھی یہودی تھا کیونکہ شہادتِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اس نے اس قرآن کو پاؤں سے ٹھوکر ماری جسے شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پڑھ رہے تھے اور یہ الٹ کر خلیفہ کے گھٹنوں پر گر پڑا۔
سطر 75:
[[زمرہ:خلفائے راشدین کی جنگیں]]
[[زمرہ:مسلم خانہ جنگیاں]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]
|